معاشی بحران اور جرمنی کا دوسرا اقتصادی پیکیج
6 جنوری 2009حکومتی ترجمان Ulrich Wilhelm نے برلن میں سرکردہ سیاستدانوں کی ملاقات سے تھوڑی دیر قبل صحافیوں سے کہا تھا کہا کہ مخلوط حکومت میں شامل تینوں سیاسی جماعتوں کرسچین ڈیموکریٹک یونین، کرسچین سوشل یونین اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈروں کی آپس میں ملاقات کا مقصد اس اقتصادی ۔ پیکج کی تیاری ہے جسے بعد میں ماہ رواں کے وسط میں مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کی ایک خصوصی کمیٹی کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا جائیگا۔ اقتصادی۔ پیکج کے متعدد نکات پر حکومتی جماعتوں CDU اور SPD کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر ٹیکسوں میں چھوٹ کا مسلہ خاصا متنازعہ ہے۔
نئے سال کے آغاز پرمخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کا ایوان چانسلر میں یہ پہلا مذاکراتی راؤنڈ ہے جس میں CDU,CSU اور SPD کے علاوہ ان جماعتوں کے پارلیمانی حزب کے قائدین بھی حصہ لے رہے ہیں۔
اس سے قبل ایوان چانسلر میں CDU اور CSU کے نمائندوں کی ملاقات رات گئے تک جاری رہی جس کے آخر میں CDU نے بھی ٹیکسوں کی شرح میں کمی کے بارے میں رضامندی ظاہر کر دی۔ کیونکہ CSU نے یہ شرط لگا رکھی تھی کہ اگر ٹیکسوں میں کمی نہ کی گئی تو وہ مجوزہ اقتصادی پیکج کے حق میں ووٹ نہیں دے گی۔ یونین جماعتیں اس بارے میں بھی رضامند ہیں کہ ملکی معیشت میں سرگرمی پیدا کرنے کے لئے تعلیم و تربیت اور عمومی اقتصادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی جائے۔ SPD کو بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں البتہ ٹیکسوں میں چھوٹ کے بارے میں اس کا مؤقف کچھ اور ہے۔
CDU کے جنرل سیکریٹری Ronald Pofalla کا کہنا ہے:’’تنخواہوں میں کٹوتیوں اور ٹیکسوں میں کمی کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔ مثلا ً صحت کےشعبے میں اخراجات کے حوالے سے جو کٹوتی ہورہی ہے اس میں کمی کا سوچا جا سکتا ہے۔‘‘
دوسری جانب SPD کے جنرل سیکریٹری Franz Müntefering کا کہنا ہے:’’جو ٹیکسوں میں کمی کرتا ہے ، جو خوشحال طبقے کے ٹیکس کم کرنا چاہتا ہے وہ سماجی ناانصافی کا مظاہرہ کررہا ہے۔‘‘