1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتمشرق وسطیٰ

مصر: شہر کی اسٹریٹ لائٹیں کیوں بند کی جا رہیں؟

17 اگست 2022

مصر نے اپنی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لیے کفایت شعاری کے نئے اقدامات متعارف کرائے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ لوگ توانائی کا استعمال کم کریں، تاکہ قدرتی گیس زیادہ قیمتوں پر فروخت کی جاسکے۔

https://p.dw.com/p/4FdGR
Ägypten nächtiche Strassenszene mit Ramadan-Dekoration
تصویر: Mohamed Hossam/dpa/picture alliance

مصر میں اس ہفتے سے موسم گرما کی راتیں زیادہ تاریک اور گرم تر ہونے لگی ہیں۔ حکومت نے کفایت شعاری برتنے کے لیے کئی نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن میں رات کے 11 بجے کے بعد سے شہر کی سڑکوں، چوراہوں، دکانوں اور مالز میں روشنی کو بند کر دینا بھی شامل ہے۔

شاپنگ مالز اور اسٹورز میں ایئر کنڈیشنگ کے لیے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بھی 20 ڈگری سیلسیس سے نیچے کی بجائے 25 ڈگری سیلسیس تک محدود کر دیا گیا ہے۔

مصر کے وزیر اعظم مصطفیٰ مدباؤلی کے مطابق بچت کرنے کا یہ نیا منصوبہ ایک سادہ طریقہ اور مساوات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ ملک کی گھریلو بجلی کی کھپت میں 15 فیصد کمی کر کے قدرتی گیس کی بہت زیادہ بچت کی جا سکتی ہے۔ مقامی صارفین قدرتی گیس کے لیے جو قیمت ادا کرتے ہیں، اس سے دس گنا زیادہ قیمت پر یہ گیس دوسرے ممالک کو برآمد کی جا سکتی ہے۔ مصر اپنی قدرتی گیس کا ایک بڑا حصہ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس میں استعمال کرتا ہے۔

لندن میں قائم جیو پولیٹکس اینڈ سکیورٹی کنسلٹنسی کے ڈائریکٹر، یلس گوور کہتے ہیں، ''مصر کا یہ اعلان پیک کولنگ سیزن کے وسط میں آیا ہے، جب عام طور پر گیس کی برآمدات گھریلو مانگ میں اضافے کے ساتھ ہی ڈرامائی طور پر گر جاتی ہیں۔''

مصر میں گھریلو قدرتی گیس کی پیداوار کا ساٹھ فیصد بجلی پیدا کرنے میں خرچ کی جاتی ہے۔ اور اگر مصری وزیر اعظم کے منصوبوں کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے تو روزانہ کی بنیاد پر تقریبا 174 ملین مکعب میٹر قدرتی گیس بچائی جا سکتی ہے۔

اگر مصر کا یہ تازہ ترین بچت کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ یقینی طور پر ملک کی تیزی سے کمزور ہوتی معیشت کو بحال کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔

ناروے کی توانائی کی تحقیقاتی اور کاروباری انٹیلیجنس کمپنی، رائسٹڈ انرجی کے مطابق اس سے ملک کی گیس برآمد کرنے کی صلاحیت ایک تہائی حد تک بڑھ جائے گی۔

ماہرین کے مطابق مصر میں اگر اس کفایت شعاری منصوبے پر عمل کیا جائے تو بچنے والی گیس دوسرے ممالک کو زیادہ مقدار میں منتقل کی جا سکتی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ممکنہ اضافی گیس کن ممالک کو بھیجی جا سکتی ہے۔ 

تجزیہ کار گوور کا کہنا ہے،  ''واضح طور پر زیادہ قیمتوں اور مانگ کے پیش نظر یورپ کا مارکیٹ بھی ہو سکتا ہے، تاہم روایتی طور پر، مصر نے بھارت اور ایشیائی ممالک کو زیادہ مقدار میں گیس سپلائی کیا ہے۔''  اگر مصر کا تازہ ترین بچت منصوبہ کام کرتا ہے، تو یہ یقینی طور پر ملک کی تیزی سے کمزور ہوتی معیشت میں مدد کرے گا۔

Ägypten Brotverkäuferin
تصویر: Tahsin Bakr/ZUMAPRESS.com/picture alliance

کرنسی کی قدر میں کمی

چونکہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں نے مارکیٹ سے ڈالر نکال لیے تھے، اس لیے رواں برس کے اوائل میں، حکومت نے مصری پاؤنڈ کی قدر میں بھی 14 فیصد کمی کر دی تھی۔  اس ہفتے کے شروع میں فائنانشیل نیوز سروس بلومبرگ نے یہ اطلاع دی تھی کہ ملک کا مرکزی بینک دوبارہ اپنی کرنسی کی قدر میں کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔

یوکرین پر روسی حملے اور گندم، ایندھن اور کھانا پکانے والے تیل کی درآمدات میں متوقع کمی کے سبب، مصر میں اہم اشیا کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔

آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ، یعنی 102 ملین میں سے 30 ملین افراد غربت کا شکار ہیں۔تقریباً سات کروڑ لوگ حکومت کی فوڈ سبسڈی پروگراموں پر انحصار کرتے ہیں۔ خاص طور پر روٹی کے لیے، جو کہ مصر کی ایک اہم غذا ہے اور ہر کھانے میں موجود رہتی ہے۔

گوور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مصر میں بہت سی اہم اشیا کے لیے سبسڈی کے وسیع تر پروگرام کا مطلب حکومت کے لیے ایک بڑا خرچ ہے، اس لیے گیس کی برآمدات کو بڑھا کر اونچی قیمتوں سے فائدہ اٹھانے کا خیال با معنی لگتا ہے۔'' تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ''آبادی پر مزید مالی دباؤ میں ڈالنا ایک خطرہ بھی ہے اور صدر عبدالفتاح السیسی کو احتیاط سے توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ عوام کو مہنگائی سے بچایا جائے، خاص طور پر وہ خاندان جو کم آمدن والے طبقوں میں سے ہیں۔ گوور نے کہا، ''بصورت دیگر، برسوں کی مشکلات کے بعد اس سے تناؤ میں مزید اضافے کا خطرہ ہے۔

ملک میں ''روٹی کے فسادات'' کی تاریخ بھی پرانی ہے۔ سن 1977، 2011 اور 2017 میں، پرتشدد جھڑپیں سبسڈی میں کٹوتیوں اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ہی ہوئی تھیں۔

مصری معیشت پر یوکرائن کی جنگ کا ایک اور اثر یہ پڑا ہے کہ روسی اور یوکرینی سیاحوں میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ کووڈ انیس کی وجہ سے یہ صنعت پہلے سے ہی بد حال تھی اور ابھی اپنی بحالی کی کوشش میں ہی تھی کہ جنگ شروع ہو گئی، جس کا مصر کی سیاحت کی صنعت پر بہت زیادہ اثر پڑا۔

ریاست پر مزید مالی دباؤ ملک کے میں تعمیر ہونے والے مہنگے بنیادی ڈھانچوں کے منصوبے ہیں۔ قاہرہ کے قریب ہی نیا انتظامی دارالحکومت زیر تعمیر ہے جبکہ اسی برس حکومت کو بھاری غیر ملکی قرضوں کو بھی ادا کرنا پڑا ہے۔ 

ادھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک اہم اقتصادی اصلاحات یا مزید غیر ملکی سرمایہ کاری کا جائزہ لیے بغیر مصر کو مزید امداد دینے میں بھی تذبذب کا شکار ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب گیس کی عالمی قیمتیں بہت زیادہ ہیں، گیس کی برآمدات میں اضافہ ملک کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بڑھانے کا ایک آسان طریقہ لگتا ہے۔ تاہم، اس منصوبے کے ساتھ دیگر مسائل بھی کم نہیں ہیں۔

ص ز/ ج ا(جینیفر ہولیز/ محمد فرحان)

مصر، فوڈ ڈیلیوری کرنے والی خواتین روایت توڑ رہی ہیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید