مسلم نوجوان مغربی ممالک پر حملے کریں، الظواہری
13 ستمبر 2015القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے آڈیو پیغام کے مطابق، ’’میں ان تمام مسلمانوں سے درخواست کر رہا ہوں، جو صلیبی اتحاد کو کسی بھی طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں، کہ وہ اس میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ سے کام نہ لیں۔ ہمیں اب اپنی جنگ ان صلیبی مغربی ممالک اور خاص طور سے امریکا کے گھروں اور شہروں کی جانب موڑنے پر توجہ دینا ہو گی‘‘۔ الظواہری نے یہ پیغام عراق اور شام میں امریکی سربراہی میں جاری کارروائیوں کے تناظر میں دیا۔
اس پیغام میں القاعدہ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ مسلم نوجوان بوسٹن میراتھن کو حملے کا نشانہ بنانے والے بھائیوں جوہر اور تیمرلان زرنائیف کے علاوہ فرانسیسی جریدے شارلی ایبدو پر حملہ کرنے والوں کو اپنے لیے ایک مثال سمجھیں۔ بوسٹن میراتھن پر اپریل 2013ء میں حملہ کیا گیا تھا اور اس واقعے میں تین افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ پیرس حملے میں بارہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ شارلی ایبدو پر حملے کی ذمہ داری القاعدہ کی یمنی شاخ نے قبول کی تھی۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ الظواہری نے یہ پیغام کب ریکارڈ کرایا تاہم اس دوران طالبان کے سابق رہنما ملا عمر کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ جیسے وہ ابھی زندہ ہو۔ اس وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پیغام کم از کم دو ماہ پرانا ہو سکتا ہے۔ افغان حکام نے ملا عمر کی موت کا اعلان جولائی کے اواخر میں کیا تھا۔ اس آڈیو ریکارڈنگ میں الظواہری نے اسلامک اسٹیٹ کے حوالے سے اپنے پرانے موقف کو دہراتے ہوئے اس گروپ کی خود ساختہ خلافت کو ناجائز قرار دیا۔ تاہم الظواہری نے یہ بھی کہا کہ وہ عراق میں شام کے سکیولر حلقوں اور مغرب کے خلاف آئی ایس کی جنگ میں ان کا ساتھ دینے پر تیار ہے۔
ایمن الظواہری کا تعلق مصر سے ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہے۔ اس پیغام میں اس نے شام اور عراق میں لڑنے والے شدت پسند گروپوں کے مابین اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان گروپوں کے مابین اتفاق رائے ہونا تقریباً ناممکن بھی ہے۔ الظواہری کے بقول اپنے تنازعات دور کرنے کے لیے ایک خود مختار شرعی عدالت قائم کرنی چاہیے۔