1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرائم میں ملوث شامی مہاجرین کو ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے‘

اے ایف پی
6 جولائی 2017

ایک ترک اخبار کے مطابق ترک وزیراعظم نے کہا ہے کہ مخصوص جرائم میں ملوث شامی مہاجرین کو ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ بیان ایسی رپورٹوں کے بعد سامنے آیا ہے جن کے مطابق بعض شامی مہاجرین ترکی میں بد امنی کا سبب بنے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2g4Hm
Syrer flüchten Richtung türkische Grenze
ترکی اس وقت تین ملین مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے جن میں سے زیادہ تعداد شامی مہاجرین کی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo

ترک روزنامے ’ہابر ترک‘ نے اپنی آج کی اشاعت میں ملکی وزیراعظم بن علی یلدرم کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی شامی تارک وطن مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا اور عدالت میں اُس کا جرم ثابت ہو گیا تو اُس کو ملک بدر کرنے کا امکان موجود ہے۔

سبب بنے ہیں۔

اخبار نے ترک وزیراعظم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا، ’’جو کوئی بھی ترک قوانین توڑتے ہوئے جرم کا ارتکاب کرے گا، اسے عدالت کا سامنا کرنا ہوگا اور اگر ضروری ہوا تو ملک بدر کر دیا جائے گا۔‘‘

ترک سوشل میڈیا اور قوم پرستوں کے حلقوں میں ایسی اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ شامی مہاجرین ملک میں ہونے والے جرائم کے ایک بڑے حصے کے ذمہ دار ہیں۔

علاوہ ازیں مہاجرین پر خرچ ہونے والی رقم اور ترکی میں ملازمتوں کے خدشات کے حوالے سے بھی شکایات سامنے آئی ہیں۔ شامی مہاجرین کی جانب سے پر تشدد کارروائیوں کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹوں سے پیدا ہونے والے خدشات کو کم کرنے کی غرض سے گزشتہ روز ترک وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ ترکی میں ہونے والے جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بہت معمولی ہے۔

 ترک وزارت داخلہ نے یہ بھی کہا تھا، ’’ایسی خبروں کے بارے میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔‘‘ وزارت داخلہ کے مطابق ایسی خبریں پھیلانے کا مقصد معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ ترکی اس وقت تین ملین مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے جن میں سے زیادہ تعداد شامی مہاجرین کی ہے۔