مجھے برطرف نہیں کیا گیا، بلکہ میں نے استعفٰی دیا ہے: امراللہ صالح
8 جون 2010پیر کو کابل میں اپنی رہائش گاہ پر دئے گئے ایک انٹرویو میں امراللہ صالح نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ انہیں اِس اہم عہدے سے جبری طور پر ہٹایا گیا ہے۔ امراللہ صالح کا کہنا تھا اُن کے استعفٰی دینے کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ صدر حامد کرزئی نے حراست میں لئے جانے والے طالبان قیدیوں کے معاملے پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس کے علاوہ کئی اور دوسری وجوہات کی بناء پر بھی وہ کافی عرصے سے استعفٰی دینے کا سوچ رہے تھے لیکن افغان امن جرگے پر حملہ اور نظرثانی والا معاملہ ان کے فوری استعفے کی وجہ بنا۔
چھ سال تک افغان خفیہ ادارے کے سربراہ رہنے والے اور افغانستان کی تاجک برادری سے تعلق رکھنے والے امراللہ صالح کا کہنا تھا کہ کرزئی گزشتے ہفتے کابل میں ہونے والے امن جرگے سے پہلے ہی اپنے سلامتی کے اداروں پر اعتماد کھو چکے تھے۔
اس حملے میں دو طالبان حملہ آور مارے گئے تھے جب کہ ایک کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سولہ سو افغان عمائدین کے اس اجتماع پر حملے نے افغان صدر کو سیخ پا کر دیا تھا، جس کے بعد اُنہوں نے امراللہ صالح اور افغان وزیرِ داخلہ حنیف اتمر سے اس واقعے کی وضاحت طلب کی تھی۔ افغان صدراتی ترجمان کے مطابق جب صدر کرزئی اُن کی وضاحتوں سے مطمئن نظر نہ آئے تو دونوں اہم رہنماؤں نے اُسی وقت استعفٰے دے دئے تھے۔
صدارتی ترجمان کے دعوےکے برعکس امراللہ صالح کا کہنا ہے، صدر کرزئی اُن سے یہ چاہتے تھے کہ وہ سیکیورٹی میں غفلت برتنے کا الزام پولیس اور وزارتِ داخلہ پر ڈال دیں، جو وہ نہیں کر سکتے تھے۔
افغان انٹیلی جینس ادارے کے سابق سربراہ نے الزام لگایا کہ پاکستان کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں میں ملوث ہے۔ امراللہ صالح نے طالبان جنگجوؤں سے مذاکرات کی سخت مخالف کرتے ہوئے کہا کہ خودکش حملہ آور افغانستان کو تباہی سے دوچار کر دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نواز عسکریت پسند تنظیم لشکر طیبہ افغانستان میں بھارتی مفادات پر حملے کرنے میں ملوث ہے، جس کے بحیثیت خفیہ ادارے کے سربراہ کے ان پاس ٹھوس ثبوت تھے۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: امجد علی