متحدہ عرب امارات میں ’خلافت‘ کے قیام کی کوشش، اجتماعی مقدمہ
2 اگست 2015متحدہ عرب امارات کے وکلائے استغاثہ کے مطابق اس سلسلے میں ان افراد کے خلاف عدالتی کارروائی جلد شروع کر دی جائے گی۔
متحدہ عرب امارات میں اس طرح ملزمان کے خلاف اجتماعی طور پر مقدمات چلائے جانے کے واقعات شاذ و نادر ہیں۔ دیگر عرب ممالک کے مقابلے میں متحدہ عرب امارات مسلم شدت پسندی کے خطرات سے کسی طور بچا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
خلیج کی اس عرب ریاست کے پراسیکیوٹر جنرل کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’ان ملزمان میں اماراتی باشندوں کے علاوہ غیرملکی بھی شامل ہیں، جو ایک گروہ بنانے کی کوشش میں تھے، جس کا مقصد یہ تھا کہ دہشت گردانہ اور تکفیری سنی شدت پسندی پر مبنی نظریات کے تحت اقتدار پر قبضہ کیا جائے اور خلافت قائم کی جائے۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان افراد پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ اپنے گروپ کے ارکان کو ہتھیاروں کے استعمال اور بم سازی کی تربیت فراہم کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات میں ایک خفیہ سیل قائم کرنے کی کوشش میں تھے، تاکہ دہشت گردانہ حملے شروع کیے جا سکیں۔
پراسیکیوٹرز کے مطابق یہ افراد غیرملکی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے میں تھے اور وہ تنظیمیں ان ملزمان کو ان کے اہداف تک پہنچنے میں مدد فراہم کر رہی تھیں۔
خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات شام اور عراق کے ایک بڑے حصے پر قابض شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی قیادت میں بننے والے بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہے۔ متحدہ عرب امارات گزشتہ برس ستمبر میں اس اتحاد میں شامل ہوا تھا۔ ابھی گزشتہ ماہ ہی اس ریاست میں ایک نیا قانون منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت کسی ’تکفیری‘ گروہ کا رکن ہونے پر سزائے موت سمیت سخت ترین سزائیں تجویز کی گئیں ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ تکفیری مسلمان، اسلام کی خودساختہ شدت پسندانہ تشریحات کو نہ ماننے والوں کو مرتد قرار دیتے ہوئے ان کے لیے سزائے موت تجویز کرتے ہیں۔ القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ جیسی دہشت گرد تنظیمیں انہی نظریات کی بنیاد پر قائم کی گئی تھیں۔