مالا کنڈ میں نظام عدل ریگولیشن
16 فروری 2009اس معاہدے پر ممکنہ امریکی ردعمل کے حوالے سے ایک سوال پر وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پہلے ہی امریکی عہدےداروں پر واضح کر چکی ہے کہ قیام امن کے لئے صرف فوجی طاقت کے استعمال پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
’’ آرمی ایکشن ہی تمام مسائل کا حل نہیں ہے، سوات کی بابت چند روز قبل ہماری جو میٹنگ ہوئی اس میں ہم نے اس آپشن کو استعمال کیا ہے کہ حکومت وہاں کے جرگوں کے ساتھ بات چیت کرے اور اگر یہ طریقہ کامیاب ہو گیا تو میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے لئے یہ فائدہ مند ہوگا۔‘‘
تجزیہ نگاروں کے خیال میں نظام عدل ریگولیشن سے فوری طور پر علاقہ میں امن کی توقعات وابستہ نہیں کی جانی چاہئیں اور اس حوالے سے صوفی محمدکے داماد اور تحریک طالبان سوات کے امیر مولانا فضل اللہ کا ردعمل انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔سیاسی تجزیہ نگار زاہد حسین کے بقول حکومت پہلے بھی طالبان سے اس طرح کے معاہدے کر چکی ہے تاہم اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے۔’’ابھی یہ اندازہ نہیں ہے کہ مولانا فضل اللہ جو کہ تحریک طالبان کے امیر ہیں ان کو یہ نظام عدل ریگولیشن قابل قبول ہوگا کہ نہیں اور کیا یہ لوگ ہتھیار ڈالیں گے کہ نہیں ڈالیں گے؟ میرے خیال میں یہ نظام عدل ریگولیشن کچھ وقت تو ضرور چلے گا لیکن زیادہ دیر تک یہ نہیں چل سکتا کیونکہ جب تک ہتھیار بند ہتھیار نہیں ڈالیں گے سوات میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘‘۔
معروف وکیل لطیف آفریدی کو بھی نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ سے دیر پا امن کے قیام کی امید نہیں۔ ان کے بقول مالاکنڈ میں پہلے بھی اسلامی قوانین ہی رائج تھے۔’’9941ء میں یہ شرعی نظام عدل ریگولیشن قائم ہوا پھر 1999ء میں اس میں ترامیم کی گئیں اور وہ جاری ہیں اس کے لئے کوئی نیا قاضی یا نیا سلسلہ نہیں بنا ان کے جو ججز ہیں ان کو ہی ایک اضافی نام دیا گیا ہے۔‘‘
بعض تجزیہ نگار سوات کے معاہدے کو حکومت کی جانب سے طالبان کے سامنے ہتھیار پھینکنے سے بھی تعبیر کر رہے ہیں اور ان کے خیال میں اس معاہدے سے سرحد کے دیگر علاقوں میں طالبان کے نئے مطالبات بھی جنم لے سکتے ہیں تاہم اس بات کا تعین آئندہ چند روز میں ہو جائے گا کہ سوات کے طالبان اس معاہدے پر عملی طور پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔