ماحولیات کی عالمی سربراہ کانفرنس سے قبل یورپی ممالک کا متفقہ لائحہ عمل
10 ستمبر 2009یورپی یونین کے موجودہ صدر ملک سویڈن سمیت پانچ یورپی ممالک کے وزراء خارجہ نے اپنے ایک اجلاس میں اس بات پر اتفاق ظاہر کیا کہ یورپ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی عالمی منصوبہ بندی میں قائدانہ کردار ادا کرے گا۔ اجلاس کے بعد ڈنمارک کے وزیر خارجہ پیر سٹیگ مولر نے نیوز کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ یورپی یونین رہنما کردار ادا کرتے ہوئے سب سے پہلے خود گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں دو ہزار بیس تک بیس فیصد تک کمی کا وعدہ کریں گی۔ مولر نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں اگر دیگر یورپی ملک متفق ہو گئے تو زہریلی گیسوں میں تیس فیصد تک کمی کا بھی ہدف رکھا جا سکتا ہے۔
’’اب وقت آ گیا ہے کہ ہم پھر قائدانہ کردار ادا کریں اور ایک حوصلہ مندانہ فائنینشل پیکیج پیش کریں جس سے غریب ممالک ماحول کے باعث پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹ سکیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مالیاتی پیکیج پر اتفاق کا نہ ہونا ترقی پزیر ممالک اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان وہ فرق ہے جس کے باعث اقوام متحدہ کی ماحول کے حوالے سے عالمی کانفرنس ناکام بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام ممالک اپنی اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائیں گے۔
ترقی پزیر ممالک، ماحولیاتی تبدیلوں کے باعث پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے لئے امیر ممالک کی جانب سے دئے جانے والے مالیاتی پیکیج کو انتاہی کم قرار دیتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسسز کی بڑی وجہ صنعتی ترقی ہے لہذا فضا میں سبز مکانی گیسوں کی زیادہ مقدار کی وجہ صنعتی ممالک ہیں۔ ایسی صورت میں ترقی پزیر ممالک موثر مالیاتی پیکیج کے بغیر سبز مکانی گیسوں کا اخراج کم کرکے اپنی ترقی کی رفتار کو سست نہیں کرنا چاہتے۔ ترقی پزیر ممالک کا یہ بھی اصرار ہے کہ رواں برس کے اختتام پر ماحولیات کے عالمی معاہدے کیوٹوپروٹول کے ختم ہو جانے پر کسی نئے معاہدے پر اتفاق کے لئے ترقی یافتہ ممالک کو یہ وعدہ بھی کرنا ہو گا کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی شرح کو سن 1990ء کے مقابلے میں سن 2020ء تک چالیس گنا کم کریں گے۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا کہ کوپن ہیگن میں ہونے والی کانفرنس کے لئے کسی متفقہ عالمی مسودے کی تیاری اب تک نہیں ہو پائی اور اس اجلاس کے بعد وہ ایک حتمی مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: کشور مصطفٰی