ماحولیاتی تبدیلیاں، ترقی یافتہ ممالک پریشان
26 مئی 2009دنیا کے سترہ ترقی یافتہ ممالک کے وزراء نے پیر کے روز پیرس میں ایک دو روزہ کانفرنس میں شرکت کی، جس میں عالمی حدت اور اس سے انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس کانفرنس کا اصل مقصد اس سال دسمبر میں ڈنمارک کے دارلحکومت کوپن ہیگن میں اقوام متحدہ کی جانب سے منعقد ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس کا ایجنڈا طے کرنا ہے۔
اس کانفرنس کے دوران جرمنی اور فرانس کے وزراء نے کہا کہ امیر ممالک کو چاہئے کہ وہ مل جل کر سبز مکانی گیسوں کے اخراج کو 2020 تک کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔ دریں اثنا ء بیجنگ نے اعلان کیا ہے کہ وہ متبادل توانائی کے ذرائع کے لئے تقریبا تین سو یورو کی سرمایا کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔
مگر اس کانفرس کے پہلے دن کے اختتام پر جرمن وزیر برائے ماحولیات نے اس دو روزہ ماحولیاتی کانفرنس پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ Sigmar Gabriel نے کہا کہ کانفرنس کے شرکاء کو اس سال کے اختتام پر ہونے والی اقوام متحدہ کی ماحولیاتی سمٹ کو نتیجہ خیز بنانے کی طرف توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔
پیرس میں منعقدہ کانفرنس کے ساتھ ساتھ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک تین روزہ عالمی تجارتی سربراہ کانفرنس جاری ہے جس سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے علاوہ یورپی کمیشن کے سربراہ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر بان کی مون نے کہا: ’’اب یہ لازم ہے کہ ماحول میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلی کو روکنے کے لئے ہم سب اپنی سیاسی کوششوں کو رکنے نہ دیں اور اس کے لئے مناسب سرمایہ کاری اور جدت پسند طریقوں کو اپنائیں، کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی اس دور کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
یورپی یونین کمیشن کے سربراہ خوزے مینول باروسو نے کوپن ہیگن میں جاری اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ دنیا کے تمام ممالک کے سربراہوں کے مابین زمین کو بڑھتی ہوئی حدت سے بچانے کے لئے اس سال دسمبر میں اقوام متحدہ کی جانب سے کوپن ہیگن میں ہونے والی کانفرنس میں کسی ایک حل پر اتفاق رائے ہوجائے گا۔