لزبن معاہدہ اور جرمن پارلیمان
2 جولائی 2009مستقبل میں جرمنی میں نافذ ہونے والے یورپی قوانین کی تیاری میں قومی سطح پربرلن کی وفاقی پارلیمان بھی جزوی طور پر اپنا کردار ادا کرسکے گی۔ اس اعلان کا جرمن ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد نے خیر مقدم کیا اور ان میں گریگور گیزی بھی شامل ہیں۔ ان کی بائیں بازُو کی جماعت ڈی لنکے نے جرمن کی آئینی عدالت میں یورپی یونین کے اصلاحاتی معاہدے پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے وجہ سے یورپ ، جرمن پارلیمان میں پہنچ گیا ہے اور یہ بات سے اہم ہے۔ گریگور گیزی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ہم یورپی یونین کے حوالے سے عوامی اہمیت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نئی منصوبہ بندی کے بارے میں سوچنا ہو گا اور اس کے لئے یہ انتہائی مناسب وقت ہے۔
اب جرمن پارلیمان مستقبل میں یورپی قوانین کی تیاری میں مزید اختیارات کا مطالبہ کرے گی۔ کیونکہ ابھی تک جرمنی کی وفاقی حکومت برسلز میں جرمن عوام کے نام پر مذاکرات اور قوانین پاس کراتی آئی ہے۔ جرمن پارلیمان میں اعتدال پسند دھڑے کے سیاست دان مارکس لونگ کے خیال میں یہ ایک بہتر قدم ہے کیونکہ اس سے یورپی یونین کا سیاسی نظام ، جو اس سے پہلے عوام سے دور تھا ، مزید جمہوری ہو جائے گا۔ مارکس لونگ کے خیال میں یورپی پارلیمان کو مزید اختیارات دینے سے یونین کے جمہوری خسارے کو اس سے مکمل طور پر پورا نہیں کیا جاسکتا۔ وہۃ مزید اِس ضمن میں کہتے ہیں کہ اس کو صرف اس طرح پر کیا جا سکتا ہے کہ جب وفاقی جرمن پارلیمان اور دیگر پارلیمانی ادارے قانون سازی پر جمہوری طور پر نگاہ رکھنے کی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔
جرمن ارکان اسمبلی کو اس بات کا اندازہ ہے کہ مستقبل میں یورپی سیاست کی وجہ سے ان پر کام کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ تا ہم وفاقی پارلیمان کے تمام دھڑوں کے اس امر پر متفق ہو جانے کے باوجود بھی کئی ارکان پر یہ واضح نہیں تھا کہ عملی طور پر اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔
جرمن صدر ہورسٹ کوئلر لزبن معاہدے پر اسی وقت دستخط کر سکتے ہیں، جب تک پارلیمنٹ کے اختیار کے حوالے سے نئی دستوری حدود کا تعین نہیں ہوتا۔ اس معاہدے پر آئندہ عمل درآمد میں، جرمن پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی شمولیت اور اُن کے حقوق کی صورت حال بہتر نہیں بنائی جاتی اور موجودہ وفاقی حکومت کی کوشش ہے کہ یہ کام اسی سال خزاں میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے کر لیا جائے ۔