لبنانی انتخابات کے نتائج پر دُنیا حیرت زدہ
14 جون 2009ان نتائج کے منظرعام پر آنے کے بعد اب دنیا بھر میں حزب اللہ کی مستقبل کی پالیسی کے بارے میں ایک نئی بحث بھی شروع ہوچکی ہے۔
حزب اللہ کی لبنانی الیکشن میں ناکامی کے بعد اس تنظیم کو لبنان کے اکثریتی طور پر شیعہ آبادی والے علاقوں میں ابھی تک عوامی حمایت حاصل ہے۔ لیکن بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کے لئے یہی حمایت اب ایک اہم سوال بنتی جارہی ہے۔
امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ کی طاقت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں لبرل سنی رہنما سعد الحریری اور ان کے اتحادیوں کی کامیابی بھی حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہ کرسکی۔ حزب اللہ امریکی انتظامیہ کی جاری کردہ دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے، جبکہ وائٹ ہاوس اور اسرائیل نے کافی مرتبہ اس پر ایران اور شام سے راکٹ اور ہتھیار لینے کا الزام بھی لگایا ہے۔
سعد الحریری اور ان کے اتحادیوں نے حالیہ انتخابات میں حزب اللہ کی 57 نشستوں کے مقابلے میں 71 نشستیں حاصل کی تھیں تاہم بیشتر عرب سیاسی تجزیہ نگار اسے حزب اللہ کی شکست کے بجائے اس کے اتحادیوں کی ہار قرار دے رہے ہیں۔ حزب اللہ کی اتحادی جماعتوں میں شیعہ عمل گروپ اور شدت پسند عیسائی رہنما میشل عون کی جماعت شامل ہیں، جن کو ان کے انتخابی حلقوں میں سعد الحریری کے اتحادیوں نے زبردست ناکامی سے دوچار کیا تھا۔
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ الیکشن کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم تو کرچکے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ان کی جماعت لبنان میں جمہوری عمل میں، پوری قوت کے ساتھ اپنے تنظیمی اور فلاحی کام جاری رکھے گی۔
اب شیخ نصراللہ کے نائب نعیم قاسم نے کہا ہے کہ حزب اللہ نے انتخابی نتائج تسلیم کرتے ہوئے نئی حکومت کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعد الحریری کو بھی اب ریاستی امور میں حزب اللہ کے ساتھ کھلے دل سے تعاون کرنا ہوگا، تاکہ لبنان میں ریاستی طاقت کے استعمال اور عمومی سماجی حالات کو بہتر بنایا جاسکے۔ نعیم قاسم کے بقول اگر ایسا نہ ہوا تو حزب اللہ یہی اقدامات اپنے طور پر کرے گی۔
ماہرین کے مطابق حزب اللہ نے اگر انتخابی نتائج تسلیم کئے ہیں تو یوں اس نے دراصل جمہوری طور پر اسرائیل کے اس دعوے کو جھوٹا ثابت کردیا ہے کہ ایران نواز حزب اللہ کو پورے لبنان پر کنٹرول حاصل ہے۔