لبنانی انتخابات: مغرب نواز اتحاد کی کامیابی
8 جون 2009المستقبل پارٹی کے سربراہ سعد حریری نے بیروت میں پرہجوم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اتحاد کی کامیابی کا اعلان کیا۔ انہوں نے کا کہا کہ آج کا دن جمہوری لبنان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔
دوسری جانب حزب اللہ اتحاد میں شامل واحد عیسائی جماعت فری پیٹریوٹک موومنٹ کے ایک رہنما نے انتخابات میں شکست تسیلم کر لی ہے۔سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی لبنان میں بطورانتخابی مبصر موجود ہیں۔
جمی کارٹر کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے وائٹ ہاؤس سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے باراک اوباما کی قاہرہ میں کی جانے والی تقریر یاد دلائی۔ جس میں انہوں نے یہ واضح کیا تھا کہ امریکہ ہران انتخابات کے حق میں ہے کہ جن آزادانہ اور منصفانہ بنیادوں پر کرائے گئے ہوں۔
لبنان کی وزیر داخلہ کے مطابق ووٹنگ کا تناسب 54 فیصد رہا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ وزیرداخلہ نے مزید بتایا کہ گذشتہ بیس سالوں کے دوران لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ لبنان میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد تین اعشارہ دو ملین ہے اور 1975 سے 1991 کے دوران ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سےان ووٹرز کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک میں مقیم ہے۔ لبنان میں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا نظام بھی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے جرمنی میں قیام پذیر لبنانی باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے گذشتہ دنوں بیروت کا رخ کیا۔ پارلیمان کی 128 نشستوں کے لئے 587 امیدوار ایک دوسرے کے مد مقابل تھے۔ انتخابات میں ریکارڈ شرکت کی وجہ سے پولنگ بوتھز کے باہر لمبی لمبی قطاریں دیکھنے میں آئیں۔ ایک ووٹر نے بتایا اسے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے تین گھنٹےانتظار کرنا پڑا۔
اس مرتبہ پورے ملک میں ایک ہی دن ووٹنگ ہوئی جس کی وجہ سے لوگوں کو انتظار کرنا پڑا۔
اس موقع پرسخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔ سعد حریری کے مغرب نواز اتحاد کے کئی حامیوں کے خیال میں حزب اللہ کی شکست مسائل پیدا کرسکتی ہے۔
ان انتخابات کے نتائج پرامریکہ اور مغربی ممالک کی توجہ مرکوز تھی کیوں کہ انتخابات سے قبل کرائے گئے بیشتر عوامی جائزوں میں سخت گیر موقف کی حامل حزب اللہ اور اس کی حلیف جماعتوں کی کامیابی کی پیشین گوئیاں کی گئی تھیں۔ اس مرتبہ حزب اللہ نے صرف گیارہ نشستوں پر براہ راست اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے۔ لبنان میں 2005ء میں ہونے والے انتخابات میں بھی مغرب نواز اتحاد نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس مرتبہ ووٹنگ کی شرح 45,8 فی صد رہی تھی۔