لاہور ریسکیو 15 پر حملہ
27 مئی 2009بدھ کے روز ایوان صدر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے لاہور دھماکے کے بعد ملکی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ جس میں تمام سیکیورٹی و خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان شرکت کریں گے۔ ادھر مشیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ لاہور میں خودکش حملہ سوات میں جاری فوجی آپریشن کا ردعمل ہے اور بقول ان کے دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنانے کے لئے ملک بھر کی سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے:’’شدت پسندوں نے سوات اور فاٹا میں شکست کھانے کے بعد ادھر کا رخ کیا ہے لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ ایجنسیز اور جتنی بھی فورسز ہیں الرٹ ہیں تقریباً سارے اہداف مقرر کر لئے گئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف چند دن کے بعد یہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور جس حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے ہم چل رہے ہیں ان شرپسند عناصر کا انشاءاللہ بہت جلد ملک سے صفایا ہو گا۔‘‘
دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے مالاکنڈ آپریشن کے ردعمل سے متعلق مسلسل خدشات ظاہر کئے جانے کے باوجود لاہور جیسے مصروف شہر کے مرکزی علاقے میں دہشت گردی کی کارروائی ناقص سیکیورٹی انتظامات کا شاخسانہ ہے۔ اس بارے میں پنجاب میں آئی ایس آئی کے سابق چیف بریگیڈیئر (ر) اسلم گھمن کہتے ہیں: ’’اتنا راستہ طے کر کے وہ اپنے ہدف تک پہنچ گئے ہیں ان کو پہلے بھی روکا جا سکتا تھا جہاں کوتاہیاں ہوں ان کا ضرور سدباب کرنا چاہئے ہر کسی کو کھلے دل سے اپنی ناکامی پر استعفیٰ دینا چاہئے لوگوں کو اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے دینی ہے صبح سے اگر ہائی الرٹ کیا ہوا ہے تو افسران کو نیند ہی نہیں آنی چاہئے۔ سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لئے مزید بہتری کی ضرورت ہے اور اداروں میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے اور ادارے مضبوط ہونے چاہئیں۔‘‘
بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ خفیہ اداروں کی اطلاعات اور خدشات کے مطابق شدت پسندوں نے شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کی جو حکمت عملی اپنائی ہے آگے چل کر یہ مزید نقصان کا باعث بن سکتی ہے اور اس سے نمٹنا حکومت کے لئے یقیناً ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس بارے میں دفاعی تجزیہ نگار اسد منیر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’جس طرح ان کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے یہ ان کی حکمت عملی ہوتی ہے کہ اور دہشت پھیلا دیں تا کہ لوگ خلاف ہو جائیں اور ایک ایسی صورتحال پیدا ہو جائے کہ یہ آپریشن بند کر دیں۔‘‘