قندوز کے ہسپتال عملے سے محروم ہوتے ہوئے
6 اکتوبر 2016افغان شہر قندوز میں طالبان عسکریت پسندوں اور کابل حکومت کی فوجی دستوں کے درمیان لڑائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اور یہ عمل وقفے وقفے سے جاری ہے۔ بظاہر حکومتی فوج کا دعویٰ ہے کہ شہر پوری طرح طالبان سے پاک کر دیا گیا ہے لیکن نیوز ایجنسی روئٹرز کو مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ مختلف علاقوں میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ چار ایام سے شہر کی گلیوں میں وقفے وقفے سے لڑائی جاری ہے۔
قندوز پر حملے اور لڑائی کی وجہ سے شہر کے ہسپتالوں سے بھی عملہ فرار ہونے لگا ہے۔ قندوز کے دو سو بستروں کے حامل سب سے بڑے ہسپتال کے ستر فیصد اہلکار اپنی جان بچانے کی فکر میں ڈیوٹی سے راہِ فرار اختیار کر چکے ہیں۔ اس صورت حال سے بیماروں اور زخمیوں کے علاج معالجے میں شدید مشکلات پیدا ہو چکی ہیں۔ اس ہسپتال پر راکٹ داغے گئے تھے۔ اس کے علاوہ چھوٹے ہتھیاروں سے بھی فائرنگ کی گئی تھی۔
اِس سرکاری ہسپتال کی ایک ڈاکٹر مرضیہ یفتال سلام نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ راکٹ حملوں اور فائرنگ سے عملے میں انتہائی زیادہ خوف و ہراس پیدا ہو چکا ہے اور عملے کے ارکان کا ڈیوٹی پر حاضر نہ ہونے سے بیماروں اور خاص طور پر لڑائی میں زخمی ہونے والوں کو علاج فراہم کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس وقت قندوز میں یہ ہسپتال علاج فراہم کرنے کا واحد مرکز ہے۔ اِس سے قبل طبی امداد فراہم کرنے والے ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے ايک جدید ہسپتال کو گزشتہ برس کے امریکی حملے کے بعد سے بند کیا جا چکا ہے۔
ڈاکٹر سلام نے یہ بھی بتایا کہ حالیہ لڑائی کے دوران دو سو دس زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا ہے اور ان زخمیوں میں کئی عام شہری ہیں۔ ڈاکٹر سلام کے مطابق زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کئی زخمیوں کو قندوز شہر کے قریبی علاقوں میں واقع طبی مراکز تک بھی پہنچایا گیا ہے کیونکہ شہر کے سرکاری ہسپتال میں مناسب طبی سہولتوں کے فقدان کے بارے میں عام لوگ آگہی رکھتے ہیں۔