قطر: جنسی زیادتی کا شکار لڑکی کو ہی گرفتار کر لیا گیا
12 جون 2016قطر میں ہالینڈ کے سفارت خانے نے اس گرفتاری کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ پیر کے روز اس مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے۔ اس بائیس سالہ لڑکی کے وکیل برائن لوکولو نے بتایا کہ ان کی مؤکلہ اپنے دوست کے ساتھ قطر چھٹیاں گزارنے آئی تھیں۔
برائن لوکولو کے بقول رواں برس 15 مارچ کو وہ ہوٹل کے بار پر شراب نوشی کر رہی تھیں کہ کسی نے ان کے مشروب میں نشہ آور کوئی شے ملا کر ان کے ساتھ زیادتی کی، ’’اس نشہ آور شے نے انہیں مدہوش سا کر دیا اور ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ان کی یاداشت جا رہی ہو‘‘۔
برائن لوکولو کے مطابق جب اس خاتون کی آنکھ کھلی تو وہ ایک انجانی جگہ پر تھیں اور ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور پھر انہیں احساس ہوا کہ وہ جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہیں۔
اس بیان میں بتایا گیا کہ جیسے ہی انہوں نے اس واقعے کے بارے میں حکام سے رابطہ کیا تو پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ وکیل لوکولو کے مطابق وہ تین مرتبہ عدالت میں پیش ہو چکی ہیں اور خدشہ ہے کہ ان پر زنا کا مقدمہ قائم کر دیا جائے۔
وکیل کے بقول اس سلسلے میں مبینہ ملزم کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ ان دونوں کے مابین جنسی رابطہ باہمی رضامندی سے قائم ہوا تھا۔ ابتدا میں مبینہ زیادتی کا نشانہ بننے والی اس لڑکی کے اہل خانہ نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی تھی۔
متاثرہ لڑکی کے گھر والے چاہتے تھے کہ مقامی سطح پر ہی اس معاملے کو حل کر لیا جائے۔ تاہم اس اختتام ہفتہ انہوں نے ہالینڈ کے ذرائع ابلاغ کو اس بارے مطلع کر ہی دیا۔ اس کے علاوہ سماجی ویب سائٹس پر بھی ڈچ لڑکی کی رہائی کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے۔
قطری حکومت نے اس واقعے پر ابھی تک کوئی بیان دیا ہے اور نہ ہی سرکاری خبر رساں ادارے نے اس معاملے پر کوئی خبر دی ہے۔2008ء میں متحدہ عرب امارات میں ایک آسٹریلوی خاتون کو یہ بیان دینے پر کہ اسی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے، آٹھ ماہ جیل میں گزارنے پڑے تھے۔
ایسا ہی ایک واقعہ 2013 ء میں بھی سامنے آیا تھا، جب ناروے کی ایک شہری کو جنسی زیادتی کی رپورٹ کرانے پر سولہ ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم بعد میں اسے معاف کر دیا گیا تھا۔
ڈچ لڑکی کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کی مؤکلہ یہ عام کرنا چاہتی ہیں کہ قطر کا سفر خطرے سے خالی نہیں ہے۔