فیس بک فرضی ناموں سے اکاؤنٹ بند کر سکتی ہے، عدالتی فیصلہ
4 مارچ 2016وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے جمعہ چار مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ شمالی جرمنی کی شہری ریاست ہیمبرگ کی ایک انتظامی عدالت نے آج اپنے فیصلے میں جس پہلے فیصلے کو منسوخ کر دیا، وہ ہیمبرگ ہی میں شہریوں کے ذاتی کوائف کے تحفظ کے محکمے یا ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی نے سنایا تھا۔
روئٹرز کے مطابق نیا عدالتی فیصلہ فیس بک کی بہت بڑی فتح ہے۔ اس لیے کہ اس کمپنی کی طرف سے طویل عرصے سے یہی کہا جا رہا تھا کہ اس کی ’اصلی نام کی پالیسی‘ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ عام صارفین کو علم ہو کہ وہ اگر کسی کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں یا اسے اپنی ذاتی معلومات فراہم کرتے ہیں، تو وہ کون ہے۔ فیس بک کے مطابق اس طرح انٹرنیٹ کی وسیع و عریض دنیا میں صارفین کو کسی بھی طرح کی زیادتی یا ناانصافی سے بچانے میں بھی مدد ملتی ہے۔
اس سے قبل ہیمبرگ کی ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی نے، جو جرمنی میں صارفین کی طرف سے فیس بک کے قانونی استعمال کو یقینی بنانے کی ذمے دار ہے، کہا تھا کہ فیس بک کی انتظامیہ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنے طور پر عام شہریوں کو مجبور کرے کہ وہ کوئی اکاؤنٹ بناتے وقت صرف اپنا اصلی نام ہی استعمال کریں یا پھر یہ کہ فیس بک کی طرف سے شہریوں سے یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی اصلی اور قانونی شناخت بھی ظاہر کریں۔
روئٹرز کے مطابق یہ معاملہ ایک قانونی تنازعے کی شکل اس وقت اختیار کر گیا تھا جب ہیمبرگ ہی کی ایک خاتون شہری نے اپنے فرضی نام کے ساتھ فیس بک پر ایک اکاؤنٹ بنایا تھا۔ لیکن فیس بک کی انتظامیہ نے اس کا یہ اکاؤنٹ بلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد فیس بک کی طرف سے اس خاتون سے پہلے اس کی کسی قانونی شناختی دستاویز کی نقل مانگی گئی تھی اور پھر بغیر اس سے پوچھے ہوئے اس سوشل میڈیا کمپنی نے اس کے اکاؤنٹ میں استعمال کیا گیا فرضی نام اس کے اصلی نام سے بدل دیا تھا۔
پھر پہلے یہ قانونی شکایت صارفین کے ذاتی کوائف سے متعلق ہیمبرگ کی ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی کے پاس گئی، جس کا کہنا تھا کہ فیس بک کی طرف سے صارفین کو صرف اپنے اصلی نام استعمال کرنے پر مجبور کرنا ان کے پرائیویسی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن اب ایک انتظامی عدالت نے اس گزشتہ فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا ہے کہ فیس بک اگر چاہے، تو اپنے صارفین کو فرضی نام استعمال کرنے سے روک سکتی ہے۔
ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ فیس بک اگر چاہے تو فی الحال اس فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر بھی کر سکتی ہے، کیونکہ اس کمپنی کا یورپی ہیڈکوارٹر آئرلینڈ میں ہے اور اسے آئرش قوانین ہی کی پاسداری پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
فیس بک کی طرف سے آج کے عدالتی فیصلے پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ دسمبر 2011ء میں آئرلینڈ میں شہریوں کے پرائیویسی حقوق کی نگران ملکی اتھارٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ فیس بک کی ’مستند ناموں کی پالیسی‘ آئرش قوانین سے متصادم نہیں ہے۔
فیس بک کا کہنا ہے کہ اس کی اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کے ناموں سے متعلق اس پالیسی کی ایک بڑی وجہ صارفین کے آن لائن ہراساں کیے جانے کے خلاف اور بچوں کے تحفط کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی ہیں۔