فن لینڈ: نایاب نسل کے بھیڑیوں کا شکار، لیکن کیوں؟
23 جنوری 2016حکام کو اميد ہے کہ فِن لينڈ ميں تقريباً ڈھائی سو ’گرے وولف‘ يعنی سرمئی رنگ والے بھيڑيوں ميں سے چھياليس کے شکار کرنے کی اجازت سے غير قانونی شکار کے عمل کو روکا جا سکے گا۔ فنش وائلڈ لائف ايجنسی سے منسلک اس شکار کی نگرانی کے ذمہ دار ڈائريکٹر ساؤلی ہارکونن نے بتايا، ’’ہم يہ تجربہ اس ليے کر رہے ہيں تاکہ يہ معلوم ہو سکے کہ آيا يہ طريقہ کار بھيڑيوں کے حوالے سے جاری تنازعے کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
فِن لينڈ کے چند ديہی علاقوں ميں زمينوں کے مالکان نے اپنے کھيتوں کے آپ پاس بھيڑيوں کو ديکھ کر ان کا غير قانونی شکار کرنا شروع کر رکھا ہے۔ چند ايک واقعات ميں بھيڑيوں نے زمينداروں کے پالتو جانوروں اور بھيڑ بکريوں وغيرہ کو بھی خوراک بنايا۔ اسی سبب ديہی علاقوں کے باسیوں میں اپنے پالتو جانوروں، بھيڑ، بکريوں حتٰی کہ اپنے بچوں تک کی حفاظت کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔
فِن لينڈ ميں تيئس جنوری سے شروع ہونے والے اس عمل کے ليے مختلف خطوں کے ليے مخصوص کوٹے مقرر کيے گئے ہيں اور ايک ماہ تک جاری رہے والے اس شکار ميں صرف لائسنس يافتہ شکاری حصہ لے سکتے ہيں۔
دو برسوں پر محيط شکار کے اس پروگرام کا آغاز آزمائشی طور پر گزشتہ برس کيا گيا تھا، جس کا مقصد جانوروں کے حقوق کے ليے سرگرم کارکنان اور ان لوگوں کے درميان کی کوئی راہ تلاش کرنا تھا جو بھيڑيوں کی تعداد ميں کمی چاہتے ہيں۔ پچھلے سال چوبيس بھيڑيوں کے شکار کی اجازت دی گئی تھی تاہم صرف سترہ کا شکار کيا گيا۔ سن 2007ء کے بعد يہ پہلا موقع تھا کہ جب فِن لينڈ ميں شکار کی اجازت دی گئی تھی۔ قبل ازيں يورپی يونين نے الزام عائد کيا تھا کہ فِن لينڈ ميں ناپيد ہوجانے کے خطرے سے دوچار جانوروں کی حفاظت کے ليے يورپی يونين کے قوانين کا احترام نہيں کيا جا رہا۔ دوبارہ تنازعہ سن 2013ء ميں اس وقت شروع ہوا جب پيرہو نامی ايک بلديہ کے مکينوں نے قانون اپنے ہاتھوں ميں ليتے ہوئے تين بھيڑيوں کو قتل کر ديا۔ اس سلسلے ميں بارہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی تھی۔
ماحول دوست افراد کا ماننا ہے کہ اس شکار کی وجہ سے بھيڑيوں کی جينياتی تنوع متاثر ہو گی۔