فرینکفرٹ اقتصادی ٹیکنالوجی کے ماہرین کو جیتنے کے لیے پر عزم
28 فروری 2016اقتصادی امور اور جدید ٹیکنالوجی اس حد تک گھل مل گئے ہیں کہ اب ان میں تفریق کرنا، یا ایک کا دوسرے پر انحصار کم کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے نیو یارک، لندن اور برلن جیسے شہر خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ تاہم اب فرینکفرٹ بھی اس حوالے سے پیش رفت کا خواہاں ہے۔ شہر کی انتظامیہ کی کوشش ہے کہ ’فِن ٹیکس‘ یا اقتصادی ماہرین، خصوصاً دنیا بھر سے اقتصادی ٹیکنالوجی کے ماہر نوجوانوں کو راغب کیا جا سکے۔
'فِن ٹیکس‘ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے نت نئی فائنینشل سروسز اور ایپلیکشنز تیار کرتے ہیں، جس سے عام آدمی کے لیے اقتصادی امور، رقم کے تبادلے اور بینکنگ کے پیچیدہ معاملات سہل کیے جانے میں مدد ملتی ہے۔
اس حوالے سے جرمن ریاست ہیسے (فرینکفرٹ اسی ریاست میں واقع ہے) کے وزیر اقتصادی امور طارق الوزیر کا کہنا ہے، ’’جب لوگ فِن ٹیکس کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں برلن اور لندن کا خیال آتا ہے۔ تاہم فرینکفرٹ بھی اس میدان میں ان شہروں کے قدم سے قدم ملا رہا ہے۔‘‘
جرمنی کے اہم ترین اقتصادی ادارے، جیسا کہ ڈوئچے بینک اور کامرس بینک، اسٹاک مارکٹ آپریٹر ڈوئچے بوریزے، سبھی کے مرکزی دفتر فرینکفرٹ میں قائم ہیں۔ تاہم الوزیر کا کہنا ہے کہ یہ شہر ٹیکنالوجی کی نئی ایجادات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ڈوئچے بوریزے نے ایک فِن ٹیک منصوبے کا افتتاح کیا تھا، جس کے تحت اپریل کے مہینے سے نئی کمپنیوں اور نئے افراد کو اقصادی ٹیکنالوجی کے میدان میں کام کرنے کے مواقع دیے جائیں گے۔
ہیسے کے وزیر اقتصادی امور الوزیر کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ فرینکفرٹ فِن ٹیکس کے لیے ’’سب سے بڑا اور سب سے اہم شہر‘‘ بن جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے اس شہر نے ’’زبردست آغاز‘‘ کیا ہے۔
ایل ایس پی نامی کمپنی کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار بارہ سے لے کر اب تک جرمنی میں فِن ٹیکس کی تعداد دوگنی ہو چکی ہے۔ تاہم کمپنی کے بانی اولیور فِنس کا کہنا ہے کہ اس بڑھتی ہوئی تعداد کو بہتر انفرا سٹرکچر کی ضرورت پڑے گی۔ فرینکفرٹ شہر کی انتظامیہ اس حوالے سے متعدد اقدامات کر رہی ہے۔