عراق میں امریکی افواج کی نئی حکمتِ عملی
30 اگست 2006تہائی سخت چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔
امریکی تربیت یافتہ نئی عراقی فوج کو درپیش مزہمت کا ایک اور ثبوت اُس وقت سامنے آیا جب وزیرِ دفاع عبدالقادر جاسم نے بتایا کہ جنوبی شہر دیوانیہ کے کنٹرول کے لئے ۲۱ گھنٹے طویل لڑائی کے دوران شیعہ باغیوں نے ۳۱ عراقی فوجیوں کو اُس وقت ہلاک کیا جب اُن سپاہیوں کا اسلحہ ختم ہو گیا تھا۔ وہاں سرکاری فوج کو پہنچنے والے بڑے نقصان کے باوجود عراق میں اعلیٰ امریکی کمانڈر جنرل جون کیسی نے کہا ہے کہ یہ عراقی فورسز کی ناکامی ہرگز نہیں ہے۔
شیعہ اور سُنی باغی گروپ عراق میں دو دھاری جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک تو آپس میں اور دوسری سیکیورٹی فورسز کے خلاف۔ اِس کی ایک مثال Hilla کا شہر ہے جو کہ قدیم بابلی دور کے کھنڈرات کے نزدیک واقع ہے۔ یہ شیعہ اکثریت والا شہر ہے لیکن اِس کے اطراف سُنی آبادی والے دیہی علاقے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران Hilla کا شہر خونریز ترین فرقہ وارانہ حملوں کا ہدف بنتا آیا ہے۔
عراق میں فوجی آپریشن کے علاوہ حکومت اور امریکی افواج کے تعاون سے بغداد میں ایک مختلف طرز کا نیا آپریشن بھی شروع کیا گیا ہے جس کی کامیابی کے امکانات بھی کچھ اچھے دکھائی نہیں دے رہے۔ اِس آپریشن کا نام ہے Together Forward جس کے تحت باغیوں کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے مخصوص علاقوں کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی عوامی بہتری کے منصوبے بھی شروع کئے گئے ہیں۔ یہ نئی حکمتِ عملی اِس لئے آزمائی جا رہی ہے کیونکہ حکومت کے پاس عراقی عوام کو اپنے اعتماد میں لینے کے لئے بہت کم وقت موجود ہے۔ اگر وہ باغیوں کے حملوں کے خلاف جلد ہی اپنا دفاع قائم نہ کر سکی تو اُس کے خاتمے کا خدشہ ہے۔
عسکری ماہرین ایک عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکی فوج کو باغیوں پر حملے کرنے کی بجائے عراقی عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اِس عمل کا دائرہ چند علاقوں سے شروع کر کے پھیلادیا جانا چاہئے۔ اِن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر حکومت ملک میں بڑے شیعہ، سُنی اور کُرد شہروں کو محفوظ بنا سکے اور عوام پر یہ ثابت کر سکے کہ وہ اپنی حفاظت کر سکتی ہے تو عراق میں بد امنی کے خلاف یہ پہلی اور اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔