عراقی وزیراعظم نوری المالکی کا دورہ امریکہ
23 جولائی 2009امریکی صدر نے ملاقات کے موقع پر اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ امریکی افواج طے شدہ شیڈول کے مطابق 2011 کے آخر تک عراق چھوڑ دیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق میں پرتشدد واقعات میں بتدریج کمی ہورہی ہے اور عراقی عوام اپنے مستقبل کی ذمے داری اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ صدر اوباما نے مزید کہا، " اب ہم عراقی انتظامیہ کوذمہ داریاں سونپنے اور دونوں ملکوں کے درمیان باہمی مفاد اور احترام کی بنیاد پر وسیع تعلقات کے فروغ کے مرحلے میں ہیں۔ اس مرحلےکی کامیابی امریکی عوام کے تحفظ اور خوشحالی کے لئے نہ صرف بہت ضروری ہے، بلکہ میری حکومت کی اہم ترجیح بھی ہے۔ "
صدر باراک اوباما نے عراقی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عراق پر سے بین الاقوامی پابندیاں ختم کروانے کے لئے امریکی حمایت کا یقین بھی دلایا، انہوں نے کہا، " میرا خیال ہے کہ عراق پر ان پابندیوں کو جاری رکھنا ایک غلطی ہوگی جو سابق آمر حکمران کے غلط اقدامات کے باعث لگائی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کے خاتمے کے لئے ہمیں اقوام متحدہ کے مختلف ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔"
صدر اوباما نے عراقی صدر کو یقین دلایا کہ بہت جلد عراق اقوام متحدہ کی پابندیوں سے آزاد ہوگا۔ اس موقع پر عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے کہا کہ مستقبل میں واشنگٹن اور بغداد کے درمیان تعلقات غیرعسکری تعاون پر مبنی ہوں گے۔
عراقی وزیر اعظم نے صدر اوباما سے ملاقات سے قبل اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کے علاوہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممالک کے نمائندگان سے بھی ملاقات کی۔ نوری المالکی نے سیکیورٹی کونسل سے مطالبہ کیا کہ عراق پر سابق صدر صدام حسین کی دور میں لگائی جانے والی پابندیاں اٹھائی جائیں۔ مالکی کا کہنا تھا کہ چونکہ اب عراق ایک جمہوری ملک ہے جس سے بین الاقوامی امن کو کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا اسکے خلاف سابق صدر صدام حسین کی جانب سے 1990ء میں کویت پر حملے کے باعث لگائی جانے والی پابندیاں ختم کی جائیں۔ مالکی نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو اس سلسلے میں عراقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے بھی آگاہ کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسی برس 22 دسمبر کو عراق پر لگائی گئی پابندیوں کا جائزہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: ندیم گِل