عدالت نے بڑے گوشت پر پابندی ختم کردی
6 مئی 2016گزشتہ برس مہاراشٹرا کی حکومت نے بڑے گوشت کی فروخت یا اسے اپنے پاس رکھنے کو ایک قابل تعزیر جرم قرار دیا تھا جس کے تحت کسی فرد کو پانچ سال قید کی سزا یا 10 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا تھا۔ ببعض ریاستوں میں گائے کو ذبح کرنے پر پابندی عائد ہے۔ خیال رہے کہ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت گائے کو مذہبی حوالے سے انتہائی مقدس جانور سمجھتی ہے۔
ریاست مہاراشٹرا کے دارالحکومت ممبئی کی اعلیٰ ترین عدالت نے آج جمعہ چھ مئی کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ گر گوشت کو ریاست مہاراشٹرا کے باہر سے لایا جائے تو اس گوشت کو رکھنا اور کھانا غیر قانونی نہیں ہے۔ تاہم اس عدالت نے مارچ 2015ء میں منظور ہونے والے قانون کے اس حصے کو برقرار رکھا ہے جس کے مطابق گائے، بیل یا بچھڑوں کو ذبح کرنے پر پابندی برقرار رہے گی۔
ممبئی کے ایک نامور وکیل ہریش جگتیانی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ عدالت نے اس شِق کو خارج کردیا ہے جس کے تحت مہاراشٹرا میں بیف کے استعمال کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔‘‘
ہریش ان متعدد درخواست گزاروں میں شامل تھے جنہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ بیف کے استعمال پر پابندی ختم کرے۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ قانون آئین میں تحفظ دیے گئے ان کے پرائیویسی کے حق کو متاثر کرتا ہے۔ ہریش کا مزید کہنا تھا، ’’انہوں نے قانون میں سے وہ شق بھی نکال دی ہے کہ جس کے تحت گوشت کو استعمال اور تجارت کی غرض سے مہاراشٹر میں درآمد کرنے کی پابندی تھی۔ ان پابندیوں کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا ہے۔‘‘
ہریش کے مطابق اس فیصلے کے بعد بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے ریستورانوں کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ وہ دوبارہ بیف درآمد کر سکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے عوام کے اس حق کی حمایت کی ہے کہ وہ جو چاہیں کھا سکتے ہیں۔
بھارت میں دائیں بازو کے گروپ طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتے آئیں ہیں کہ ملک میں تمام طرح کے مویشیوں کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ وہ مویشیوں کو مذہبی حوالے سے مقدس قرار دیتے ہیں۔ ان گروپوں کی طرف سے گزشتہ برس مہاراشٹرا کی حکومت کی طرف سے بیف کے استعمال کے حوالے سے قوانین سخت بنانے پر جشن منایا گیا تھا۔ مہاراشٹرا میں قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے جس نے انتہائی دائیں بازو کی ہندو جماعت شیو سینا کی مدد سے یہ قوانین منظور کیے تھے۔