عالمی ٹینس جواریوں کے لیے پکا پکایا پھل بن گئی، ماہرین
18 جنوری 2016اس کھیل سے وابستہ ماہرین اور اندرونی ذرائع کا کہنا ہے ٹیموں کے حامل کھیلوں کی بجائےکسی ایک کھلاڑیوں کو میچ فکسنگ کے لیے خریدنا سٹے بازوں کے لیے آسان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے جواریوں کے لیے ٹینس کا کھیل پیسے بنانے کا آسان طریقہ بن گیا ہے۔
میلبورن میں رواں برس کے پہلے گرینڈسلام آسٹریلین اوپن کے آغاز کے وقت ٹینس کو سب سے بڑا جھٹکا اس وقت لگا، جب یہ الزامات سامنے آئے کہ ٹینس کے عالمی منتظیمین ادارے اس کھیل میں میچ فکسنگ کے مسئلے کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں متعدد ذرائع نے بتایا کہ یہ الزامات ان افراد کی جانب سے لگائے جا رہے ہیں، جو اس کھیل پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ کھیل میں جعل سازی نہایت باریکی سے کی جاتی ہے، جسے پکڑنا بے انتہا مشکل ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف سڈنی سے وابستہ سینیئر لیکچرار سٹیو جیورگاکیس، ٹینس میں میچ فکسنگ کے معاملے پر تحقیق کر رہے ہیں۔ جیورگاکیس کا کہنا ہے، ’دنیا بھر میں ہر سال درجنوں ٹورنامنٹ ہوتے ہیں، جو ٹی وی پر نشر نہیں ہوتے اور ان میں غیرمتوقع طور پر نام ور کھلاڑی غیرمعروف کھلاڑیوں سے شکست کھا جاتے ہیں۔
’’اگر آپ بڑے ٹورنامنٹس پر نظر ڈالیں، جیسے اوپن ٹورنامنٹس یا اولپمک گیمز، آپ دیکھیں گے کہ ان میں عموماﹰ فیورٹ کھلاڑی جیت جاتے ہیں۔ مگر چھوٹے ٹورنامنٹ میں معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ کوئی کیسے یہ ثابت کر سکتا ہے کہ چھوٹے ٹورنامنٹس میں دنیا کے پچاس بہترین کھلاڑیوں کی شکست کی وجہ ان کا تھکا ہونا یا زخمی ہونا نہیں تھی۔‘‘
روئٹرز کے مطابق چھوٹے ٹورنامنٹس میں عالمی رینکنگ پر سرفہرست کھلاڑیوں کا زیادہ پیسے لے کر جان بوجھ کر غیرمعروف کھلاڑیوں سے ہار جانا، واضح طور پر بتاتا ہے کہ اس کھیل میں میچ فکسنگ کس حد تک در آئی ہے۔
جیورگاکیس کا مزید کہنا ہے، ’’یہ ایک کے مقابلے میں ایک کھلاڑی کا حامل کھیل ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ فرض کیجیے آپ فیورٹ ہیں، جب کہ آپ کے مدمقابل ایک بہت عام سا کھلاڑی ہے۔ آپ اس سے ہار جاتے ہیں اور کوئی آپ کو پکڑ نہیں سکتا کہ یہ شکست ہو کیسے گئی؟۔‘‘
سن 2014ء میں اس کھیل سے وابستہ ایک ماہر نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ ٹینس میں میچ فکسنگ کے حوالے سے کئی مرتبہ آن لائن اور موبائل جواریوں کی سائٹس سامنے آ چکی ہیں اور شرطیں لگانے کی یہ منڈی تین کھرب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔