عالمی مالیاتی بحران : کسی معجزے کے انتظار میں
1 اکتوبر 2008امریکی مالیاتی بحران کے عالمی اقتصادی منظر نامے پر پیدا ہونے والے اثرات کے تناظر میں کئی ملکوں کی جانب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اِس بحران کی ذمہ داری اب امریکہ کو قبول کر لینی چاہئے۔ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے سکائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو احساس کرنا چاہئے کہ اُس پر اندرون ملاک اور بیرون ملک یعنی بقیہ دنیا کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اِس صورت حال میں امریکہ کو آگے بڑھتے ہوئے اپنی بحران زدہ کمپنیوں اور باقی دنیا کے مالیاتی اداروں میں پیدا شدہ صورت حال کی ذمہ داری کو قبول کرنا ضروری ہے۔
دوسری جانب ایوانِ زیریں میں بُش انتظامیہ کے سات سو ارب ڈالر کے ریسکیو پلان کو مسترد کرنے پر امریکی صدر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسئلے سے نمٹنے کے لئے کوششوں کا اختتام نہیں ہے۔ صدر بُش کا یہ بھی کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر دِن بعد صورت حال مزید گھمبیر ہوتی جا رہی ہے اور اگر جلد کوئی راست قدم نہیں اٹھاتے تو نتائج انتہائی خراب ہو سکتے ہیں۔ امریکی صدر کے مطابق ڈوبے ہوئےکھربوں ڈالر کو واپس حاصل کرنے کے لئے جو قیمت تجویز کی گئی ہے وہ بہت کم ہے۔ امریکی سیاسی جماعت ری پبلکن کے صدارتی امیدوار جان میک کین نے بھی ایوان زیریں میں ریسکیو پلان کے مسترد ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا اِس بحران کے تناظر میں واشنگٹن کی جانب دیکھ رہی تھی مگر کانگریس خالی ہاتھ کے ساتھ سامنے آئی ہے۔
امریکی کانگریس میں ایک اور ووٹنگ کے امکانات کی وجہ سے امریکی اور یورپی سٹاک مارکیٹ میں منگل کو تیزی دیکھنے میں آئی۔ دوسری جانب مالیاتی منڈیوں یا منی مارکیٹس جہاں سے بینک اپنی کم مدتی سرمایہ کاری کے لئے قرضے لیتے ہیں وہاں مرکزی بینکوں کی جانب سے اربوں ڈالر ڈالنے کے باوجود صورت حال میں ٹھہراؤ دیکھنے میں آ رہا ہے جو کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔
عالمی اقتصادی منظر نامے کے اہم ممالک جیسے بھارت اور جرمنی ہیں اُن کی جانب سے امریکی کانگریس میں مالیاتی بحران سے نمٹنے والے ریسکیو پلان پر دوبارہ ووٹنگ کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں باقاعدہ بے چینی محسوس کی جا رہی ہے۔ اِس مناسبت سے حکومتوں کے اقتصادی مشیر مالیاتی منڈیوں پر نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ رابطوں اور ملاقاتوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ملاقاتوں کے اِس تازہ سلسلے میں نئے جاپانی وزیر اعظم Taro Aso نے یورپی سنٹرل بینک کے سربراہ Jean-Claude Trichet سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ تمام تر خطرات کے باوجود عالمی مالیاتی نظام کو ناکام نہیں ہونے دیا جائے گا۔
دوسری جانب عالمی مالیاتی بحران کا نشانہ ایک اور اہم یورپی بینک بن گیا ہے اور وہ ہے Dexia بینک جس کی مدد کو فرانس، بیلجئم اور لکسمبورگ سامنے آئے ہیں۔ اِن ملکوں کی جانب سے نو ارب ڈالر کی مدد فراہم کی گئی ہے۔
یورو زون کا ملک آئر لینڈ بھی مالیاتی بحران کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ آئر لینڈ ، سٹاک مارکیٹ کے کریش ہونے اور سالانہ شرح نمو میں ترقی انتہائی کم ہونے کے بعد باقاعدہ طور پر اقتصادی کسادبازاری کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔ حکومت نے اپنے کسٹمرز کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لئے اعلان کرتے ہوئے اُن کی جمع شدہ رقم کی باقاعدہ ضمانت فراہم کی ہے۔
دوسری جانب اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی مالیاتی بحران کی خراب ترین صورت نے نمودار ہونا ہے کیونکہ مالیاتی بحران سردست کاروبار کے کریڈٹ کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہے اور اگر اِس کو بچانے کی تمام تدابیر ناکام ہو گئیں تو عالمی مالیاتی نظام برف کی طرح پگھلنے لگے گا۔ ایسے خیالات بھی سامنے آنے لگے ہیں کہ بڑے بینکوں کے دیوالیہ ہونے کے اعلان سے مالیاتی بحران میں کمی واقع ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اِس کے لئے ضروری ہے کہ مرکزی بینک شرح منافع میں کٹوتی کا عملی فیصلہ کرے کیونکہ یہی ڈوبتے سرمائے کو شاید واپس لانے کا سبب بن سکے۔ ماہرین کے خیال میں اِس کٹوتی کے فیصلے کا مناسب وقت آ چکا ہے اور تاخیر سے ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ بڑھتی افراطِ زر بھی مالیاتی اور اقتصادی نظام کی بنیادوں میں دراڑ پیدا کرنے کی کوششوں میں ہے۔ مذہبی خیالات کے حامل افراد کا خیال ہے کہ اچھا کرنے اور دکھانے کے پس پردہ چُھپی لالچ اور طمع بھی مالیاتی بحران کی ایک وجہ ہے۔