1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی اقتصادی محاذ پر بھارت کے لئے نامناسب صورتحال

جاوید اختر، نئی دہلی
3 جون 2017

بھارت کے لئے یہ ہفتہ دو بُری خبروں کا حامل رہا۔ ایک طرف بھارت سے دنیا کی تیز رفتار ترقی کرنے والی معیشت کی پوزیشن چھن گئی ہے تو دوسری طرف عالمی بینک کی رپورٹ میں خواتین ملازمین کی صورت حال کوتشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2e4o5
Deutschland Hannover Messe 2015
تصویر: DW/J. Dumalaon

اقتصادی ترقی کے تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق بھارت کی مجموعی ملکی پیداوار ( جی ڈی پی) کی شرح 7.1 فیصد سے گھٹ کر 6.1 فیصد ہوگئی ہے۔ یہ گذشتہ دو برسوں میں سب سے کم ہے۔ اس باعث بھارت دنیا میں سب سے تیزی سے ابھرتی ہوئی اقتصادیات کا اعزاز کھو بیٹھا ہے اور اب یہ مقام بھارت کے دیرینہ حریف چین کو حاصل ہوگیا ہے۔ چین کے سرکاری اخبارگلوبل ٹائمز نے اس پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت کی ترقی کی شرح 6.1 فیصد تک گر جانا بڑے کرنسی نوٹوں پرپابندی جیسی ’اہم اور اختراعی‘ اصلاحات کا نتیجہ ہے۔
اپوزیشن کانگریس پارٹی نے اس صورت حال کیلئے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ گذشتہ سال نومبر میں حکومت کی جانب سے بڑے نوٹ منسوخ کرنےکے بعد ہی ماہرین معاشیات اور کانگریس نے معاشی ترقی کی شرح میں کمی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ سنگھوی کے مطابق آج صورت حال یہ ہے کہ کسانوں کو اپنے پھل ،سبزیاں اوردودھ سڑک پرپھینک کراحتجاج کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

Indien Straßenverkäufer mit Geldscheine Archiv 2013
مودی حکومت کی جانب سے بڑے نوٹ منسوخ کرنےکے بعد ماہرین معاشیات نے معاشی ترقی کی شرح میں کمی کا خدشہ ظاہر کیا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Rout

 دوسری طرف مودی حکومت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اس صورت حال کو کمزور عالمی اقتصادی حالات کے علاوہ کانگریس حکومت سے وراثت میں ملنے والی خراب معیشت کو بڑی وجہ قرار دیا۔

دوسری جانب عالمی بینک کی طرف سے بھارت کی ترقی سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں خواتین ملازمین کی شرح دنیا میں کم ترین ہے اوراس معاملے میں یہ اپنے پڑوسی ملکوں نیپال‘ بھوٹان ‘ بنگلہ دیش اورسری لنکا سے بھی پیچھے ہے۔ نیپال میں پندرہ سال یا اس سے زیادہ عمر کی ورکنگ خواتین کی تعداد 80 فیصد ہے جب کہ بھارت میں شرح صرف 27 فیصد ہے۔ لیکن بھارت اس معاملے میں اپن۔ روایتی حریف پاکستان سے قدرے بہتر ہے، جہاں ورکنگ خواتین کی شرح 25 فیصد ہے۔
تاہم بھارت کیلئے تشویش کی بات یہ کہ یہاں 26 سے 45 برس تک کی عمر والی ساٹھ فیصد خواتین اقتصادی لحاظ سے سرگرم نہیں ہیں۔ نیز بھارتی کالجوں سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنے والی خواتین میں سے صرف 40 فیصد ہی معاشی سرگرمیوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔
معروف کالم نویس اوربھارت کے سرکاری نشریاتی ادارہ پرسار بھارتی کی سابق چیف ایگزیکٹو افسر مرنال پانڈے کا کہنا ہے،’’خواتین ورکرز کے حوالے سے عالمی بینک کی رپورٹ میں131 ملکوں میں بھارت کو 121 واں مقام ملا ہے۔ یہ کسی بھی لحاظ سے اچھی بات نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،''مڈل کلاس کے نوجوان پڑھی لکھی بیوی چاہتے ہیں تاکہ وہ آمدنی حاصل کرنے والی پارٹنرثابت ہوسکے لیکن ایسے جوڑوں میں بھی روایتی پابندیاں آڑے آتی ہیں اور کام کرنے والی خواتین پر روایتی دباؤ رہتا ہے کہ وہ بیوی یا بہو بن کر رہے۔‘‘
خیال رہے کہ اقوام متحدہ ڈیویلپمنٹ پروگرام کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رینکنگ کے لحاظ سے سن 2015 میں بھارت 188 ملکوں کی فہرست میں131ویں مقام پر تھا ۔صنفی مساوات کے لحاظ سے یہ صورت حال اور بھی تشویش ناک ہے۔ صنفی عدم مساوات انڈکس میں 159ملکوں میں بھارت کا مقام 125واں ہے۔

 

Indien Gudi Festival
صنفی عدم مساوات انڈکس میں 159ملکوں میں بھارت کا مقام 125واں ہےتصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee