طوفان زدہ میانمار میں نیا آئین نافذ
29 مئی 2008ملک میں طوفان سے ہونے والی تباہ کاریوں کے باوجود میانمار حکومت کے ریفرنڈم کروانے کے اقدام کوعالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق‘ رواں ماہ کے آغاز میں کرائے جانے والے ریفرنڈم میں نوّے فیصد سے زائد عوام نے نئے آئین کے حق میں ووٹ دیا۔ نئے آئین سے حکومت پر فوج کا کنٹرول مزید مضبوط ہونے میں مدد ملے گی۔
میانمار جنتا یعنی فوجی حکومت کا کہنا ہے کہ نئے آئین سے ملک میں جمہوری اقدار کوفروغ ملے گا۔
سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق چودہ برس کے عرصے میں تیار ہونے والا نئے آئین کو‘ سٹیٹ پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ کونسل کے سربراہ‘ تھان شوئے نے خود منظوری دی۔
دریں اثناء میانمار حکومت کے حامی اخبار نے نظربند اپوزیشن رہنما آنگ سان سُوچی کی جماعت پر نرگس طوفان کے بعد فسادات کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
The New Light of Myanmar نامی اس اخبار نے اپنے ادارئیے میں لکھا ہے کہ اپوزیشن‘ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے طوفان کے متاثرین کے لئے آنے والی امدادی رقوم کو فسادات بھڑکانے کے لئے استعمال کیا۔
حکومتی سرپرستی میں شائع ہونے والے مذکورہ روزنامے کا الزام ہے کہ اپوزیشن عوامی جذبات کا استحصال کرکے متاثرین کی مدد کرنے کے بجائے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
تاہم اپوزیشن ایسے تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
جنتا کی جانب سے حزبِ اختلاف پر یہ تنقید اور الزامات کی بوچھاڑ‘ آنگ سان سُوچی کی نظربندی میں ایک برس کی توسیع کے بعد سامنے آیا ہے۔
اپوزیشن نے اس توسیع کے فیصلے کے خلاف زبردست احتجاج کیا تھا جبکہ سرکاری میڈیا میں سُوچی کی قید میں توسیع کو رپورٹ بھی نہیں کیا گیا۔
ادھر میانمار حکومت کی جانب سے ملک کے طوفان زدہ علاقوں میں داخلے پر عائد پابندیوں میں نرمی کے بعد امدای کارکن ان علاقوں میں پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کے امدادی کارکنوں کو اب ویزے مل رہے ہیں جن کو پہلے میانمار کے متاثرہ علاقوں میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔
دریں اثناء بیرونی امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ طوفان آنے کے چار ہفتوں کے بعد بھی‘ تقریباً پچیس لاکھ متاثرین میں سے صرف چالیس فیصد تک ہی امداد پہنچ رہی ہے بقیہ ساٹھ فیصد امداد کے منتظر ہیں۔