صومالیہ کے سمندری قزاق
19 نومبر 2008رہی سہی کسر نہ ختم ہونے والی خشک سالی نے نکال دی۔ آج صومالیہ کی نصف آبادی کو سخت غذائی قلت کا سامنا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ملک، دہشتگردی کا راج، جابروارلارڈز، زیر زمین سرگرم عمل عسکریت پسند گروپس اور بے یارو مددگار عبوری حکومت۔ یہ ہیں وہ حالات، جو جرائم پیشہ گروپوں کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ چونکہ صومالیہ کے ساحلی علاقوں کی نگرانی کی کوئی انتظام نہیں ہے اس لئے بحری قزاقوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ جواس سمندری راستے سے گزرنے والے جہازوں کو اغوا کر کے بطور تاوان بھاری رقوم وصول کرتے ہیں۔
بین الاقوامی جہازرانی دفتر کے سربراہ Pottengal Mukundan کا اس آبی گزرگاہ کے بارے میں کہنا ہے:’’ اس وقت دنیا کا یہ سب سے زیادہ خطرناک سمندری راستہ ہے۔‘‘
سال رواں کے دوران 60 سے زاہد بحری جہاز صومالیہ کے ساحلی علاقوں کے سامنے سے اغوا کئے گے ۔ ان میں سے زیادہ تر جہازوں کو شمالی صومالیہ کے بندرگاہی شہر eyl سے تقریباً 8 کلومیٹر دور رکھا جا تا ہے۔ اس مقام کو قزاقوں کے گڑھ کی حیثیت حاصل ہے۔ یوکرائن کا اغوا شدہ ایک مال بردار جہازبھی یہیں کھڑا ہے جس میں 3 درجن ٹینک، بہت سے ہتھیار اور گولہ بارود لدا ہے۔ بحری قزاق تاوان وصول کرنے کے لئے کشتیاں اور مال بردار جہاز اغوا کرتے ہیں۔
مثلاً ایک جرمن مال بردار جہاز چھڑانے کے لئے جہاز راں کمپنی کو 2,5 ملین ڈالرادا کرنے پڑے تھے۔ایک برطانوی پولیٹک انسٹیوٹ کے مطابق صرف اس سال بحری قزاق اب تک 30 ملین ڈالر تاوان۔رقم کے طور پر وصول کر چکے ہیں۔سعودی عرب کا آئل ٹینکر سایرس سٹار بحری قزاقی کا نشانہ بننے والا سب سے بڑا جہاز ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس علاقے میں امریکہ اور نیٹو کے تین جنگی جہاز گشت کرتے رہتے ہیں۔ تا کہ اس مصروف ترین بحری گزرگاہ کو محفوظ بنایا جا سکے۔ اس کے باوجود جہازوں کے اغوا کی کاروائیاں ختم نہیں ہوئیں۔