’صرف پرویز مشرف پر ہی غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا‘
10 نومبر 2015اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے تین شریک ملزمان سابق وزیر اعظم شوکت عزیز ،سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور سابق وزیر قانون زید حامد کی درخواستوں پر منگل کو فیصلہ سنایا۔
عدالت عالیہ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ان درخواستوں پر فیصلہ انیس اکتوبر کو محفوظ کیا تھا۔
منگل کو جاری کیے گئے حکم میں عدالت نے کہا ہے کہ تفتیشی ادارے خصوصی عدالت کی طرف سے ان تینوں افراد کے بارے میں دیے گئے ریمارکس سے متاثر ہوئے بغیر ان کے خلاف تحقیقات کریں۔
عدالت نےاپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران حکومت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس مقدمے کی تفتیش میں کچھ کمی رہ گئی ہے، جس کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ آئین شکنی کا مقدمہ دوسرے مقدمات کی نسبت مختلف ہے اور اس مقدمے کا اندارج اور اس تفتیش کسی کی خواہش کے مطابق نہیں کی جا سکتی بلکہ اس پر قانون کے مطابق عمل کرنا پڑتا ہے۔
خصوصی عدالت نے نومبر دوہزار چودہ میں سابق فوجی صدر کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ملک میں تین نومبر کو ہنگامی حالت کے نفاذ پر اس وقت کے وزیراعظم، وزیر قانون اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو شریک جرم کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اس کے بعد مذکورہ تینوں شریک ملزمان نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
خصوصی عدالت میں مقدمے کی پیروی کرنے والی استغاثہ کی ٹیم کے ایک رکن اکرام چوہدری نے کہا،’’ہم نے خصوصی عدالت میں یہی مؤقف اپنایا تھا کہ تین نومبر دوہزار سات کے غیر آئینی اقدامات کے جنرل مشرف تنہا ذمہ دار ہیں اور انہی کے خلاف کاروائی کی جائے۔ پھر جب عدالت نے حکم دیا کہ شریک ملزمان کو مقدمے میں شامل کیا جائے توحکومت اس کے لئے بھی تیار تھی اوراس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہا کہ وہ شریک ملزمان کے خلاف بھی کارروائی کے لیے تیار ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت جوں ہی اس مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع کرے گی تو استغاثہ کی ٹیم پوری مستعدی کے ساتھ اس کی پیروی کے لیے تیار ہے۔
تاہم جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم آنے کے بعد ان کے مؤکل کے خلاف خصوصی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا ۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’عدالت کی طرف سے ملزمان سے تحقیقات کرنے کا کہا گیا ہے، تو اس کی روشنی میں جنرل مشرف کےخلاف بھی دوبارہ تحقیقات ہوں گی اور پھر چالان جمع کرایا جائے گا۔‘‘
آئینی ماہر جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے بعد اب وفاقی حکومت کوتنہا جنرل پرویز مشرف کے خلاف کاروائی کرنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا، ’’ایک اہم بات یہ ہے کہ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب اب سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بن گئے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ اب بھی خصوصی عدالت کی کارروائی جاری رکھیں گے یا الگ ہوجائیں گے اگر وہ اس مقدمے سے الگ ہوگئے تو پھر بنچ کی دوبارہ تشکیل میں وقت لگ سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کسی نتیجے پر پہنچنے کے بارے میں وقت کا تعین کرنا مشکل ہے۔