فوجی دستے شام بھیجنے کے لیے تیار ہیں تاہم امریکا قیادت کرے‘
7 فروری 2016متحدہ عرب امارات ) یو اے ای( نے کہا ہے کہ وہ شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف برسر پیکار فوجی اتحاد کی حمایت اور تربیت کے لیے زمینی دستے بھیجنے کے لیے تیار ہے تاہم اس قسم کی پیش قدمی کی قیادت امریکا کرے۔ متحدہ عرب امارات کے ریاستی وزیر برائے خارجہ امور انور گرگاش کا کہنا ہے کہ ان کا ملک شام میں متحرک شدت پسند اسلامی تنظیم داعش کے خلاف کارروائی کے لیے زمینی افواج بھیجنے پر رضامند ہے۔
سعودی عرب گزشتہ ہفتے ہی شام میں ایک زمینی آپریشن میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کر چُکا ہے تاہم ریاض حکومت چاہتی ہے کہ امریکی قیادت والا اتحاد اس آپریشن کے بارے میں فیصلہ کرے۔ سُنی علاقائی قوتیں، جن میں ترکی بھی شامل ہے، شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے زمینی دستے تک شام بھیجنے پر رضا مندی ظاہر کر رکھی ہے بشرطیکہ یہ کارروائی ایک بین الاقوامی رابطہ کاری کوششوں کے تحت کی جائے۔
ترک روز نامے ’حُریت‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق لاطینی امریکا کے دورے سے وطن لوٹنے پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ایک بیان میں کہا ہے، ’’حلب کے چند حصوں میں اسد حکومت نے جنوبی اور شمالی کوریڈور کو کاٹ دیا ہے۔ ترکی اس وقت انتہائی خطرے میں ہے۔‘‘ ایردوآن نے کہا ہے کہ ترک فوج اپنی قومی سلامتی کے خطرات کا مقابلہ کرنے کا مکمل اختیار رکھتی ہے تاہم ترکی کے سینیئر حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ نیٹو رکُن ریاست شام میں کسی یکطرفہ دراندازی کا ارادہ نہیں رکھتی۔
شام میں امن کی خاطر پوپ فرانس کی اپیل
مسیحییوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ شام میں امن مذاکرات کی بحالی کو ممکن بنانے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں۔ پوپ فرانسس نے اتوار کو اپنے ہفتہ وار دعائیہ خطاب میں یہ بیان دیتے ہوئے کہا، ’’جنگ سے تباہ حال ہمارے اس عزیز ملک کو ایک مصالحتی اور پُر امن مستقبل کی ضمانت دینے کے لیے شامی بحران کا سیاسی حل ہی واحد راستہ ہے۔‘‘
پوپ نے اُن نہتے شامی مہاجرین کی صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار بھی کیا جو جنگ سے فرار ہو کر اپنا ملک چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہیں۔ پوپ فرانسس کا کہنا تھا، ’’مجھے امید ہے کہ شامی مہاجرین کے انسانی وقار اور اُن کی بقا کی خاطر اُن کی ممکنہ امداد کی جائے گی۔‘‘
پوپ کے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب گزشتہ بُدھ کو شامی امن مذاکرات شام میں جنگی صورتحال میں شدت پیدا ہونے کے سبب معطل کر دیے گئے تھے اور اُس کے بعد سے شام کے تاریخی شہر حلب میں باغیوں اور شامی فورسز کے مابین گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔ اس لڑائی میں شامی فورسز کو روسی جیٹ طیاروں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ حلب اور اس کے گرد و نواح سے 35 ہزار سے زائد شامی مہاجرین ترکی کی سرحدوں تک پہنچے ہیں۔
شام کی جنگ پر کڑی نظر رکھنے والی سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اتوار کو حلب کے شمال میں واقع شامی گاؤں بشکوئی اور ترکی کی طرف جانے والی شاہراہ سے شمال کی طرف واقع دیہات حریتان اور کفرحمرہ میں ہونے والے فضائی حملے روسی طیاروں کے معلوم ہوتے ہیں۔