شامی فوج کا کامیاب خفیہ ہتھیار، ’موٹر سائیکل‘
19 جنوری 2016شامی فورسز نے سلمیٰ شہر کے تنگ راستوں تک پہنچنے، وہاں جنگ کرنے اور ان علاقوں تک خوراک اور ہتھیار پہنچانے کے علاوہ زخمیوں کو بھی وہاں سے نکالنے کے لیے اس سواری کا کامیابی سے استعمال کیا۔
شامی فوجیوں کے مطابق سلمیٰ شہر کا کنٹرول حاصل کرنے میں موٹر سائیکلوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ شہر ساحلی صوبہ الازکیہ کا حصہ ہے اور یہ باغیوں کا ایک غیر معمولی مضبوط گڑھ قرار دیا جاتا تھا۔
سلمیٰ شہر 2012ء میں حکومتی فورسز کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔ ایک 25 سالہ شامی فوجی ہینی کے مطابق اس نے گزشتہ نو ماہ کا زیادہ تر وقت موٹر سائیکل پر ہی گلیوں میں جنگ کرتے ہوئے گزارا ہے: ’’جنگ کے آغاز کے بعد سے ہمارے لڑنے کا طریقہ کار اب کافی تبدیل ہو چکا ہے اور ہم حملوں کے لیے اپنے طریقے بنا چکے ہیں۔‘‘ سلمیٰ شہر کی گلیوں کا چکر لگا کر واپس آنے والے اس شامی فوجی کا، موٹر سائیکل سے اترتے ہوئے مزید کہنا تھا، ’’ان دنوں ہم ان کی رفتار اور آسان نقل حرکت کی وجہ سے موٹر سائیکلوں کا استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
باغیوں کے ماہر نشانہ بازوں نے حکومتی فورسز کو کھانا پہنچانے والی گاڑیوں کو کئی بار نشانہ بنایا تاہم ہینی کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کی فائرنگ کی زد سے بچ سکتا ہے: ’’میرے موٹر سائیکل کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے اور اس کا وزن بھی بارودی سرنگ کو پھاڑنے کے لیے درکار وزن سے کم ہے۔‘‘
سلمیٰ شہر چونکہ تنگ گلیوں اور پہاڑیوں اور قلعوں پر مشتمل ہے اس لیے اس شہر میں روایتی طریقوں سے جنگ انتہائی مشکل ہے۔ شامی فوجیوں کے مطابق اس کی بعض گلیوں میں تک کاروں، بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی مدد سے پہنچنا نا ممکن ہے۔
شامی فوج کے فیلڈ کمانڈر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’شہر کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے آخری لڑائی میں ہم نے 80 موٹر سائیکلوں کا استعمال کیا اور اس جنگ کے آخری 72 گھنٹوں میں ان موٹرسائیکلوں نے جیت کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔‘‘ اس کمانڈر کا مزید کہنا تھا، ’’موٹر سائیکلوں کی مدد سے زخمیوں کو وہاں سے نکالنے، ہلکے ہتھیاروں اور خوراک کی ترسیل کی گئی بلکہ مشین گنوں اور رات کو دیکھنے والی ڈیوائس کے ساتھ فوجیوں نے اس پر لڑائی میں بھی حصہ لیا۔‘‘
یہاں تک کہ اس کمانڈر نے خود بھی اپنے سپاہیوں اور لڑائی کے مقامات کا جائزہ لینے کے لیے موٹر سائیکل کا استعمال کیا: ’’موٹر سائیکل پر جا کر میں اپنے فوجیوں کو دیکھتا ہوں کیونکہ یہ رفتار میں تیز بھی ہے اور ہلکا بھی جبکہ کار کے مقابلے میں اس کا کھوج لگانا کہیں زیادہ مشکل ہے۔‘‘
تاہم اس کمانڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ شامی فوج نے میدان جنگ میں موٹر سائیکلوں کا استعمال مخالف باغیوں سے ہی سیکھا ہے اور اب ان کی مدد سے وہ گوریلا جنگ اور گلیوں میں لڑائی کے حوالے سے ایک ایڈوانس پوزیشن میں آ چکے ہیں۔
شامی حکومت نے گزشتہ برس ستمبر میں روس کی جانب سے شام میں فضائی حملے شروع کیے جانے کے بعد سے بہت سی جنگی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سلمیٰ شہر کو باغیوں کے قبضے سے حاصل کرنے کے لیے لڑی جانے والی جنگ کے دوران بھی روسی طیاروں نے باغیوں کے اہداف کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔