سینتیس برس بعد زمبابوے کے صدر موگابے مستعفی ہو ہی گئے
21 نومبر 2017زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے سے منگل اکیس نومبر کی شام ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پارلیمانی اسپیکر جیکب موڈینڈا نے آج شام اعلان کیا کہ صدر موگابے نے استعفیٰ دے دیا ہے اور ان کا 37 سالہ دور اقتدار اب حتمی طور پر اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔
رابرٹ موگابے، جن کی عمر اس وقت 93 برس ہے، 1980ء میں زمبابوے کی برطانیہ سے آزادی کے دن سے ہی اس ملک کے صدر چلے آ رہے تھے۔ ان کے خلاف چند روز قبل ملکی فوج نے اس طرح بغاوت کر دی تھی کہ اقتدار پر فوج نے قبضہ کر لیا تھا اور موگابے سے کہا گیا تھا کہ وہ صدارتی عہدے سے علیحدہ ہو جائیں۔
موگابے استعفیٰ دیں، معزول نائب صدر
’موگابے صدارتی منصب سے مستعفی ہونے پر تیار ہو گئے‘
اسی دوران ہرارے میں حکمران جماعت زانو پی ایف کے مرکزی قیادت کے ایک اجلاس میں بھی موگابے کو پارٹی قیادت سے الگ کر دیا گیا تھا اور کافی دنوں سے اپنے گھر پر نظر بند موگابے سے کہا گہا تھا کہ وہ اپنے استعفے کا اعلان کر دیں۔ اسی اجلاس میں زانو پی ایف نے اپنے نئے مرکزی لیڈر کا انتخاب بھی کر لیا تھا اور موگابے کی اہلیہ گریس موگابے کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔
ان مطالبات کے برعکس قریب چار عشروں تک اقتدار میں رہنے والے موگابے مستعفی ہونے سے مسلسل انکار کرتے آ رہے تھے۔ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں زانو پی ایف نے موگابے کو یہ الٹی میٹم بھی دے دیا تھا کہ وہ پیر اکیس نومبر تک مستعفی ہو جائیں ورنہ پارلیمان میں ان کے مواخذے کی کارروائی شروع کر کے انہیں صدارتی عہدے سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔
رابرٹ موگابے نے یہ الٹی میٹم بھی تسلیم نہیں کیا تھا اور آج منگل اکیس نومبر کو ہرارے میں ملکی پارلیمان کے ایک مشترکہ اجلاس میں ان کے مواخذے کی کارروائی شروع بھی کر دی گئی تھی۔ پھر شام کے وقت پارلیمانی اسپیکر جیکب موڈینڈا نے اعلان کیا کہ رابرٹ موگابے نے بالآخر استعفیٰ دے دیا ہے۔
زمبابوے: فوج نے اقتدار سنبھال لیا
’نہ مر رہا ہوں، نہ کہیں جا رہا ہوں،‘ صدر موگابے کا اعلان
تقریباﹰ آمریت کی حد تک خود پسند حکمران موگابے نے اپنا استعفیٰ جس خط میں دیا، اس کا متن پڑھتے ہوئے پارلیمانی اسپیکر نے کہا کہ موگابے نے لکھا ہے، ’’میں رابرٹ گابریئل موگابے ملکی آئین کی دفعہ 96 کے تحت فوری اور باضابطہ طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہوں۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق پارلیمانی اسپیکر نے یہ ’بہت بڑی خبر‘ اس مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں سنائی، جس نے موگابے کے مواخذے کی کارروائی کا آج ہی باقاعدہ آغاز بھی کر دیا تھا۔ رابرٹ موگابے 1980 سے اپنے ملک میں عوامی زندگی کے ہر پہلو پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔
موگابے کے استعفے کے اعلان کی خبر سنتے ہی دارالحکومت ہرارے اور کئی دیگر شہروں میں عوام نے سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منانا شروع کر دیں۔ موگابے کے استعفے کے ساتھ ہی زمبابوے میں شدید سیاسی بے یقینی کا وہ ہفتہ بھی ختم ہو گیا ہے، جس کی پہلے اس ملک کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
89 سالہ رابرٹ موگابے کا ساتواں دور صدارت
ہرارے میں ملکی فوج کی طرف سے کنٹرول سنبھال لینے کے بعد کئی دنوں تک ہزارہا شہری سڑکوں پر روزانہ احتجاج کرتے رپے تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ موگابے اقتدار سے الگ ہو جائیں۔
زمبابوے کی فوج عشروں تک رابرٹ موگابے کی حمایت کرتی رہی تھی لیکن کچھ عرصہ قبل جب رابرٹ موگابے نے یہ کوشش کی کہ ان کی اہلیہ گریس موگابے کو ان کی سیاسی جانشین بننا چاہیے، تو فوج میں شدید عدم اطمینان پایا جانے لگا تھا۔
پھر رابرٹ موگابے نے نائب صدر ایمرسن منانگاگوا کو بھی برطرف کر دیا تھا، جس کے بعد فوج مجبور ہو گئی تھی کہ حالات کے مزید خراب ہونے سے پہلے اپنے سربراہ چیوینگا کی سربراہی میں حالات کو اپنے کنٹرول میں لے لے۔ اسی لیے ہرارے میں خوشیاں مناتے بہت سے مظاہرین نے موگابے کے استعفے کے بعد منانگاگوا اور چیوینگا کی بڑی بری تصویریں بھی اٹھائی ہوئی تھیں۔