سکيورٹی خدشات کے باوجود شامی پناہ گزينوں کی آسٹريليا منتقلی
16 نومبر 2015کينبرا حکومت کی جانب سے اعلان کردہ بارہ ہزار شامی مہاجرين کی آسٹريليا منتقلی کے سلسلے ميں يہ پہلا ايسا خاندان ہے جو آسٹريليا پہنچ رہا ہے۔ آسٹريلوی وزير برائے سوشل سروسز کرسٹين پورٹر نے پير کے روز اعلان کيا کہ پانچ افراد پر مشتمل يہ خاندان منگل سترہ نومبر کی شام تک مغربی آسٹريليا کے شہر پرتھ پہنچ رہا ہے۔
آسٹريليا کی جانب سے رواں برس ستمبر ميں اعلان کيا گيا تھا کہ مشرق وسطٰی ميں بد امنی کے تناظر ميں بارہ ہزار اضافی پناہ گزينوں کو آسٹريليا ميں پناہ فراہم کی جائے گی۔ اس اعلان سے قبل بھی آسٹريليا کی جانب سے تيرہ ہزار مہاجرين کو پناہ فراہم کرنے کا فيصلہ کيا جا چکا تھا۔ بارہ ہزار اضافی پناہ گزينوں کی منتقلی کا اقدام خاص طور پر شام اور عراق کے شہريوں کے ليے کيا گيا ہے۔ تارکين وطن کی منتقلی کا يہ عمل ايک ايسے وقت شروع ہو رہا ہے، جب حال ہی ميں پيرس ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے سبب عالمی سطح پر سکيورٹی کافی سخت کر دی گئی ہے۔
آسٹريلوی وزير پورٹر نے پناہ گزينوں کے پہلے گروپ کی آمد پر بات کرتے ہوئے کہا، ’’يہ خاندان کافی کچھ سہہ چکا ہے۔‘‘ انہوں نے بتايا کہ پرتھ پہنچنے والا يہ شامی خاندان کافی عرصے تک پناہ گزينوں کے کيمپوں ميں وقت گزار چکا ہے۔ کرسٹين پورٹر نے مزيد بتايا کہ سياسی پناہ فراہم کرنے کے سلسلے ميں آسٹريليا کا طريقہ کار کافی قابل بھروسہ ہے اور وہ والدين اور تين بچوں کے اس خاندان کی آمد پر عوام کی جانب سے مثبت رد عمل کی توقع رکھتے ہيں۔
اس کے برعکس آسٹريلوی رياست نيو ساؤتھ ويلز کے ايک سياستدان نے سماجی رابطوں کی ويب سائٹ فيس بک پر اپنی ايک پوسٹ ميں ملکی حکومت سے مطالبہ کيا تھا کہ مہاجرين کے ليے سرحديں بند کر دی جائيں۔ يہ پوسٹ آسٹريلوی رکن پارليمان اينڈرو فريزر نے لکھی تھی۔ تاہم آسٹريلوی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کر ديا تھا۔ اٹارنی جنرل جارج برينڈس کے بقول، ’ہم جو سب سے غلط قدم اٹھا سکتے ہيں، وہ يہ ہو گا کہ اس وقت مسلمان کميونٹی کو تنہا چھوڑ ديا جائے۔‘
پيرس ميں حاليہ دہشت گردانہ حملوں کے جائے وقوعہ سے ايک شامی شہری کا پاسپورٹ برآمد ہونے کے بعد سے اس حوالے سے خدشات سامنے آ رہے ہيں کہ يورپ ميں پہنچنے والے تارکين وطن ميں دہشت گرد بھی شامل ہو سکتے ہيں۔ پير ہی کے روز فرانسيسی وزير اعظم مانوئل والس نے دعویٰ کيا ہے کہ حملوں کی منصوبہ بندی شام ميں کی گئی تھی اور ساتھ ساتھ انہوں نے يہ تنبيہ بھی کی ہے کہ فرانس اور يورپ ميں ديگر مقامات پر اسی طرز کے حملوں کا خطرہ موجود ہے۔