231211 Tsunami Bojen
26 دسمبر 2011ایشیا کے مختلف ملکوں میں سونامی کی تباہ کاریوں کے بعد سونامی سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے مختلف انتظامات کیے گئے تھے۔ انڈونیشی حکومت نے سونامی کی تباہی سے بچنے کے لیے ایک سونامی انتباہی نظام نصب کیا تھا۔ اس نظام کی تنصیب میں جرمنی نے بھی تعاون کیا۔ اس نظام میں ایسے آلات استعمال کیے گئے ہیں، جو پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے سمندر کی تہہ میں ہونے والی تبدیلیوں کا حساب رکھتے ہیں۔ جرمن حکام نے اس طرح کے آٹھ آلات جکارتہ میں حکام کو دیے تھے۔ تاہم وہ ان حساس آلات کی صحیح طور پر حفاظت نہ کر سکے اور اب ان آلات میں سے کوئی ایک بھی قابل استعمال نہیں ہے۔
انڈونیشیا کی تکنیکی ایجنسی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ ملک کے مختلف ساحلوں پر نصب سونامی کے پیشگی انتباہی نظام کے آلات کے بارے میں رپورٹ مرتب کرے۔ اس پروجیکٹ کے نگران وایُو پانڈو کے مطابق سطح سمندر پر تیرتے ہوئے یہ آلات صرف کچھ روز ہی قابل استعمال رہے تھے۔ ان کے بقول سماٹرا کے ساحلوں پر نصب چاروں آلات میں خرابی پیدا ہو چکی ہے۔ ساتھ ہی جاوا میں بھی یہ آلات اب مزیدکار آمد نہیں رہے۔
پانڈو کے بقول تمام آلات میں خرابی پہلے ہی سے موجود تھی۔ کبھی ان کی رسی ٹوٹ جاتی تو کبھی کوئی جہاز ان سے ٹکرا کر گزر جاتا۔ جن علاقوں میں یہ آلات نصب ہیں وہاں مچھلیاں پکڑنے کا رجحان بھی بہت زیادہ ہے۔ جرمنی کے علاوہ امریکہ نے بھی کچھ آلات فراہم کیے ہیں۔ ساتھ ہی ہم نے بھی کئی آلات خود تیار کیے ہیں۔ اکثر یہ آلات دانستہ طور پرکی جانے والی توڑ پھوڑ کی نظر ہو جاتے ہیں۔
پانڈو کے خیال میں زیادہ تر مچھیرے انہیں تکنیکی آلات نہیں سمجھتے اور اپنی کشتیاں ان نازک آلات کے ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ ان آلات میں نصب سینسر بھی چوری کر لیے گئے ہوں۔ ان کے بقول تھائی لینڈ اور بھارت میں نصب آلات میں بھی خرابی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ پانڈو نے مزید بتایا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے ان آلات کی ہر وقت نگرانی کی جا سکے۔ ساتھ ہی خرابی کی صورت میں اضافی پرزہ جات کی فراہمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آلات بہت پیچیدہ ہیں۔ اگر ان میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو انہیں خشکی پر لانا ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک بحری جہاز کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ انہیں ٹھیک کرنا ایک طویل اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
انڈونیشیا کی تکنیکی ایجنسی کے افسر وایُو پانڈو کے بقول اس وقت تین آلات کی مرمت جاری ہے اور اندازے کے مطابق یہ کام اگلے برس کے وسط تک مکمل ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتداء میں نصب کیے جانے والے 14 آلات میں سے اس وقت صرف پانچ ہی کام کر رہے ہیں۔ ان کے بقول جرمنی کی جانب سے دیا جانے والا انتباہی نظام اس وقت فعال نہیں ہے اور انڈونیشا کو دیگر ملکوں سے حاصل کیے گئے آلات پر بھروسہ کرنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک