’سنگ لازورد افغانستان ميں بحران اور انتشار میں اضافے کا سبب‘
6 جون 2016کرپشن پر نظر رکھنے والے لندن میں قائم ’گلوبل وٹنس‘ نامی واچ ڈاگ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عشروں سے جنگ اور سیاسی عدم استحکام کی شکار ہندو کش کی ریاست افغانستان میں ہر سال طالبان سمیت دیگر مسلح گروپ غیر قانونی کان کنی کر کے 20 ملین ڈالر کما رہے ہیں۔ يہ گروپ نیلے رنگ کا بہت نایاب اور قیمتی پتھر لازورد، جسے لاجورد بھی کہا جاتا ہے، بيچ کر کمائی کرتے ہيں۔
گلوبل وٹنس نامی اس گروپ نے اپیل کی ہے کہ افغانستان کے اس نایاب نیلے پتھر کو ایسی ’قیمتی معدنیات کی فہرست میں شامل کیا جائے جو تنازعات کا سبب بنتی ہیں۔‘
سنگ لازورد کی کانیں سب سے زیادہ افغانستان کے شمالی صوبے بدخشان میں پائی جاتی ہیں۔ ’گلوبل وٹنس‘ کے مطابق یہ صوبہ اس وجہ سے بہت غیر مستحکم اور شورش زدہ ہے کیونکہ یہاں موجود ان نایاب نیلے پتھروں کی کانوں پر قبضہ حاصل کرنے کی کوشش یہاں کے مقامی طاقتور افراد سے لے کر قانون ساز اور طالبان عناصر سب ہی کرتے ہیں۔ بدخشان ویسے بھی ’چھوٹا افغانستان‘ مانا جاتا ہے جس کی صورتحال پورے ملک کی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ کان کنی، افیون اور پوست کے کاروبار کے بعد طالبان کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ معاش بن چُکی ہے۔ طالبان افیون اور پوست کا کاروبار زیادہ تر جنوبی صوبے ہلمند میں کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بکنے والی زیادہ تر منشیات جنوبی افغانستان سے ہی برآمد ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق افغانستان کا سالانہ ڈرگ ٹریڈ 3 بلین ڈالر تک بنتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جنگ سے تباہ حال اس ملک کی معدنی اور پیٹرو کیمیکل اثاثوں کی قیمت کئی بلین ڈالر بنتی ہے لیکن حکومت کے پاس ان معدنی ذخائر کو مہارت سے بروئے کار لانے اور اسے مزید ترقی دینے کے لیے درکار وسائل موجود نہیں۔ معدنی ذخائر کی ترقی کے لیے افغانستان میں غیر ملکی کمپیناں بھی کام کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ وہاں کی امن عامہ کی صورتحال انہیں اس کام کی اجازت نہیں دیتی۔
گلوبل وٹنس کا کہنا ہے کہ اگر معدنی ذخائر اور قدرتی اثاثوں کو مناسب طریقے سے ترقی دی جائے اور انہیں بروئے کار لایا جائے تو یہ کابل حکومت کو سالانہ 2 بلین ڈالر ریونیو دے سکتے ہیں۔ اس واچ ڈاگ کی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ محض 2014 ء میں افغان حکومت کو نیلے رنگ کے نادر پتھر ’سنگ لازورد‘ سے حاصل ہونے والی محصولات میں 17.5 ملین ڈالر کی کمی کا سامنا رہا جبکہ 2015 ء میں اس کی آمدنی میں 10 ملین کی کمی دیکھنے میں آئی۔
2014ء میں مسلح گروپوں نے اس پتھر سے 19.9 ملین ڈالر کمائے تھے۔ واچ ڈاگ کی رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ اسی سال ان پتھروں کا غیر قانونی کاروبار کرنے والے ایک با اثر شخص، جس کا نام عبدل ملک ہے، نے طالبان کو سات لاکھ پچاس ہزار ڈالر رقم ادا کی تھی تاکہ وہ اس قیمتی اور نایاب پتھروں کی غیر قانونی کان کنی میں ملوث نہ ہوں۔ گلوبل وٹنس کے مطابق گزشتہ برس یعنی 2015 ء میں عبدل ملک نے طالبان کو اسی سلسلے میں 4 ملین ڈالر ادا کیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کی ابتر صورتحال اور حکومت کے ہاتھوں سے قوانین و ضوابط کا کنٹرول نکل جانے کے سبب کان کنی پر بھی اب کابل انتظامیہ کا کوئی کنٹرول باقی نہیں رہا ہے۔