’سنگِ راہ‘: دنیا کی سب سے بڑی بکھری ہوئی یادگار
13 مئی 2016جرمن دارالحکومت میں انسانوں کا ایک گروپ ایک ایسے علاقے میں کھڑا ہوا ہے، جہاں کسی زمانے میں مشرقی اور وسطی یورپ کے یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے۔ اس گروپ میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں اور ان کا تعلق جرمنی، اسرائیل، ہالینڈ اور کینیڈا سمیت اور بھی کئی ممالک سے ہے۔ ان میں کچھ طالب علم بھی ہیں، جو یہودیوں کے قتل عام (ہولوکاسٹ) کے موضوع پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
یہ تمام افراد آرٹسٹ گنٹر ڈیمنگ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ڈیمنگ اپنے خاص انداز میں ہیٹ پہنے وہاں پہنچے۔ ان کے پاس سیمنٹ، مختلف اوزار اور دو چمکدار پتھر بھی تھے، جن پر ایرزسیبٹ اور یاکوب ہونگ کے نام درج تھے۔ چھوٹے سے تعارف کے بعد وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے اور ایک گڑھا کھودنا شروع کر دیا۔ اس فنکار کو اپنا کام ختم کرنے میں دس منٹ لگے۔ اب یہ پتھر زمین میں نصب ہو چکے تھے۔ گنٹر ڈیمنگ نے ان پتھروں کو ایک مرتبہ صاف کیا اور اپنا ہیٹ پہن کر چل دیے۔
ایرزسیبٹ کا تعلق ہنگری سے تھا اور وہ 1896ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ اپنے شوہر سے طلاق لینے کے بعد وہ برلن آ گئی تھیں اور یہاں انہوں نے یاکوب ناکی شخص سے دوسری شادی کر لی تھی تاہم نازی دور کے دوران یہودی ہونے کی بنا پر اس جوڑے کو جرمنی چھوڑنا پڑ گیا تھا۔
اسی شام ’سنگ راہ‘ نصب کرنے کے بیس برس پورے ہونے پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے ڈیمنگ نے کہا کہ ایک دن میں انہوں نے برلن کے سترہ مختلف مقامات پر شناخت والے یہ پتھر نصب کیے تھے۔ اس کام کا آغاز انہوں نے 1996ء میں کیا تھا اور انہوں نے برلن کے علاقے کروئزبرگ کے پچاس یہودیوں کی یاد میں پہلا پتھر نصب کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ سب کچھ غیر قانونی تھا۔ اس موقع پر نہ تو کوئی صحافی موجود تھا، نہ پولیس تھی اور نہ ہی ان افراد کا کوئی رشتہ دار، بس تجسس کے شکار کچھ افراد مجھے دیکھ رہے تھے۔‘‘
تب سے اب تک جرمن دارالحکومت سے لے کر ناروے اور یونان سے لے کر روس تک گنٹر ڈیمنگ ساٹھ ہزار سے زائد پتھر نصب کر چکے ہیں۔ یہ سنگ راہ صرف یہودیوں کی یاد میں ہی نہیں بلکہ دوسری عالمی جنگ کے دوران مختلف اذیتی مراکز میں ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والے روما اور سنتی، ہم جنس پرستوں اور سماجی طور پر نا پسند قرار دے کر قتل کیے جانے والے افراد کی یاد میں بھی نصب کیے گئے ہیں۔