1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سماجی بائیکاٹ‘ پر پابندی

افسر اعوان13 مئی 2016

مہاراشٹرا وہ اولین بھارتی ریاست بن گئی ہے جس نے گاؤں کی مقامی کونسلوں کی طرف سے ’سماجی بائیکاٹ‘ کے فیصلوں پر پابندی لگا دی ہے۔ اس طرح کے بائیکاٹ کا نشانہ عام طور پر نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد اور خواتین بنتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Infk
تصویر: Reuters/A. Abidi

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق اس طرح کے فیصلے عام طور پر بھارت میں کمتر سمجھی جانے والی دلت برادری کے افراد کے خلاف دیے جاتے ہیں جو عموماﹰ کسی دوسری ذات میں شادی بیاہ یا ’غیر مناسب‘ لباس وغیرہ پہننے جیسے معمولی واقعات پر بھی بطور سزا سنائے جاتے ہیں۔

بھارت کی اس مغربی ریاست نے گزشتہ ماہ کئی دہائیوں سے جاری پنچائتی نظام کے خلاف بھی ایک قانون بنایا تھا۔ مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ دیوندرا فدناویس کے بقول، ’’لوگوں کو ذات، برادری اور روایات کے نام پر زیادتیوں کا نشانہ بنانے کے خلاف یہ قانون ضروری تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’عوامی فلاح کے لیے سماجی اصلاحات کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ سماجی بائیکاٹ کے سلسلے کو ختم کیا جائے۔‘‘

اس طرح کے بائیکاٹ کا نشانہ عام طور پر نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد اور خواتین بنتی ہیں
اس طرح کے بائیکاٹ کا نشانہ عام طور پر نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد اور خواتین بنتی ہیںتصویر: AP

گاؤں کی کونسل یا پنچائت کے حکم پر اس طرح کے واقعات اکثر ہوتے رہے ہیں جن میں مختلف افراد یا خاندانوں کو گاؤں سے نکال دیا جاتا ہے اور انہیں مندروں، پانی کے کنوؤں، گاؤں کی مارکیٹ یا دیگر رسوم اور تقاریب میں شرکت کی اجازت نہیں ہوتی۔ بعض واقعات میں تو پنچائتوں کی طرف سے خواتین کو جادوگرنیاں تک قرار دیتے ہوئے بطور سز ان کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی یا ان کو قتل کر دینے تک کی سزائیں بھی دی گئیں۔

مہاراشٹرا کے نئے قانون کے مطابق سماجی قطع تعلق ایک جرم قرار دے دیا گیا ہے جس کی سزا سات سال قید یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ مقرر کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ دیگر بھارتی ریاستیں بھی مہاراشٹرا کی پیروی کریں۔

ممبئی میں قائم ’سنٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم‘ کے ڈائریکٹر عرفان انجینیئر نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اس قانون سے ذاتوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کی روک تھام میں کسی حد تک مدد ملے گی۔ اس سے نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اختیارات بہتر ہوں گے کیونکہ اس کے ذریعے گاؤں کی پنچائتوں کے خلاف کارروائی کا ایک طریقہ کار مل گیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے قوانین بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی نافذ کیے جائیں، خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں گاؤں کی یہ پنچائتیں بہت زیادہ طاقت رکھتی ہیں۔