سلامتی کونسل کی صدارت اور جرمن ترجیحات
30 جون 2011پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں ہر رکن ملک کو اس کی باری پر ایک مہینے کے لیے اس ادارے کی سربراہی کا موقع دینے کا مقصد یہ ہے کہ دس غیر مستقل رکن ملکوں، خاص طور ترقی پذیر ریاستوں کو بھی یہ احساس دلایا جائے کہ اقوام متحدہ کے بڑے فیصلوں میں وہ بھی برابری کی سطح پر شامل ہیں۔ تاہم کسی بھی رکن ملک کا اس ادارے کا صدر بننے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے طور پر کوئی فیصلے کر سکتا ہے، اس لیے کہ سلامتی کونسل کے ضوابط کے تحت ہر فیصلہ اکثریتی رائے سے ہی کیا جاتا ہے۔
سلامتی کونسل کے ویٹو طاقتیں کہلانے والے پانچ مستقل رکن ملکوں کو چھوڑ کر جرمنی ان دس ملکوں میں شامل ہے، جنہیں گزشتہ برس دو سال کے لیے اقوام متحدہ کے اس اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے کا رکن منتخب کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار صرف امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کو حاصل ہے، جن میں سے ہر کوئی کسی ایسی مجوزہ قرارداد کو بھی ویٹو کر کے ناکام بنا سکتا ہے، جسے چاہے باقی تمام 14 رکن ملکوں کی حمایت حاصل ہو چکی ہو۔
جرمنی کی سلامتی کونسل میں موجودہ غیر مستقل رکنیت کا عرصہ دسمبر سن 2012 میں پورا ہوگا۔ جرمنی خود اپنے لیے بھی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا خواہش مند ہے اور وہ جاپان، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ اور نائجیریا جیسی افریقی ریاستوں کے ایسے ہی مطالبات کا بھی حامی ہے۔
امریکی شہر نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر میں جرمن سفارتی مشن کے سربراہ پیٹر وِٹِّگ (Peter Wittig) ہیں، جن کی خواہش ہے کہ جولائی میں جرمنی کے زیر صدارت سلامتی کونسل کی کارکردگی واضح طور پر منفرد نوعیت کی ہونی چاہیے۔ اسی سوچ کے تحت اقوام متحدہ میں جرمن سفیر نے کل جمعہ کے دن سے سلامتی کونسل کی صدارت کے فرائض سنبھالنے سے قبل آج جمعرات کو یو این ہیڈ کوارٹرز کے گارڈن میں غیر ملکی سفیروں اور صحافیوں کے لیے اس ادارے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک باربیکیو پارٹی کا اہتمام بھی کیا ہے۔
جرمن سفیر Peter Wittig نے ایک مہینے کے لیے سلامتی کونسل کا صدر بننے سے پہلے اس بارے میں کافی تیاری کر رکھی ہے کہ جولائی کے مہینے میں جرمنی کے لیے اس عالمی ادارے کی سطح پر سب سے اہم کام کیا ہوں گے۔ اس سلسلے میں وہ اقوام متحدہ کی مسلح تنازعات اور بچوں سے متعلقہ امور کے لیے خصوصی مندوب رادھیکا کوماراسوامی کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور پیٹر وِٹِّگ کی خواہش ہے کہ جرمنی کی صدارت کے عرصے میں ہی اس موضوع پر تفصیلی بحث کے بعد ایک نئی قرارداد کا مسودہ منظوری کے لیے پیش بھی کر دیا جائے۔
اس مسودے میں بحران زدہ علاقوں میں اسکولوں اور ہسپتالوں کی بہتر حفاظت کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا جائے گا کیونکہ مختلف ملکوں میں مسلح تنازعات کے شکار زیادہ تر بحران زدہ علاقوں میں یہی تعلیمی اور طبی ادارے زیادہ تر متحارب فریقین کے درمیان تصادم کی زد میں آتے ہیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شامل شمس