1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سفيد فن لينڈ کے مافظ‘: تارکین وطن کے خلاف سڑکوں پر

عاصم سليم14 جنوری 2016

فن لينڈ کے پرچم اور وائکنگ کے نشان والی سياہ جيکٹوں ميں ملبوس ’اوڈين کے فوجی‘ مقامی لوگوں کو تارکين وطن سے بچانے کے ليے سڑکوں پر نکل آئے ہيں۔ فن لينڈ ميں يہ حاليہ پيش رفت حکام کے ليے درد سر بن گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HcyN
تصویر: picture-alliance/dpa/LEHTIKUVA/J. Nukari

’اوڈين کے فوجی‘ نامی ایک گروپ کی بنیاد شمالی شہر کيمی کے نوجوانوں نے رکھی تھی۔ یہ شہر سويڈن سے فن لينڈ ميں داخل ہونے والے پناہ گزينوں کا گڑھ مانے جانے والے شہر ٹورنيو کے قريب واقع ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ گروپ ملک کے ديگر کئی شہروں ميں پھيل چکا ہے۔

شمالی يورپی ملک فن لينڈ کو بڑی تعداد ميں پناہ گزينوں کو خوش آمديد کہنے کا کوئی تجربہ نہيں۔ ليکن ديگر کئی يورپی رياستوں کی طرح فن لينڈ بھی ان دنوں بڑی تعداد ميں پناہ گزينوں کی آمد کے سبب مشکلات کا شکار ہے۔ حکام کو بھی خدشہ ہے کہ تارکين وطن مخالف جذبات اور واقعات رونما ہو سکتے ہيں۔

’اوڈين کے فوجی‘ نامی گروپ کے ارکان ملک ميں جرائم ميں اضافے کا الزام ’دخل اندازی کرنے والے اسلام پسندوں‘ پر عائد کرتے ہيں۔ متعدد مظاہروں ميں ايسے پلے کارڈز بھی ديکھےگئے ہيں جن ميں ’مہاجرين خوش آمديد نہيں‘ لکھا ہوا تھا۔ کيمی ميں اس گروپ کے ارکان روزانہ گشت کرتے ہيں۔ گروپ کے ايک رکن نے سماجی رابطے کی ويب سائٹ فيس بک کے پيج پر ايک پيغام ميں لکھا ہے، ’’يہ ايک حب الوطن تنظيم ہے، جو ايک سفيد فن لينڈ کے ليے سرگرم ہے۔‘‘ گروپ نے دعویٰ کيا ہے کہ وہ تيئس شہروں ميں فعال ہے اور فيس بک پر اسس کے فینز کی تعداد تقريباً 7,600 ہے۔

فن لينڈ کی اکثريتی آبادی اس گروپ کی مخالف ہے۔ ہلسنکی حکومت نے بھی خبردار کيا ہے کہ ملکی سلامتی اور تحفظ کسی گروپ قا رضاکاروں کی ذمہ داری نہیں اور نہ ہی رضاکارانہ رکھوالی کرنے والوں کی فن لینڈ میں کوئی جگہ ہے۔ وزير اعظم یوہا سيپيلے نے سرکاری نشریاتی کمپنی YLE سے بات چيت کے دوران کہا، ’’اصولی طور پر قانون کی بالا دستی کی ذمہ داری پوليس کی ہے۔‘‘

گزشتہ برس قريب بتيس ہزار تارکين وطن پناہ کے ليے فن لينڈ پہنچے جبکہ سن 2014 ميں يہ تعداد محض 3,600 تھی
گزشتہ برس قريب بتيس ہزار تارکين وطن پناہ کے ليے فن لينڈ پہنچے جبکہ سن 2014 ميں يہ تعداد محض 3,600 تھیتصویر: picture-alliance/dpa/LEHTIKUVA/J. Nukari

گزشتہ برس قريب بتيس ہزار تارکين وطن پناہ کے ليے فن لينڈ پہنچے جبکہ سن 2014 ميں يہ تعداد محض 3,600 تھی۔ فن لينڈ ميں مخلوط حکومت کی ايک اتحادی جماعت ’دا فنز‘ مہاجرين مخالف جماعت ہے ليکن اس نے بھی اس گروپ کے ارکان کی جانب سے گشت کيے جانے پر تنقيد کی ہے۔ وزير داخلہ Petteri Orpo نے کہا ہے، ’’اس قسم کی گشت واضح طور پر تارکين وطن مخالف اور نسل پرست ہے اور اس سے سکيورٹی کی صورتحال بہتر نہيں ہو رہی۔‘‘

دوسری جانب يہ امر بھی اہم ہے کہ حکومت پر مہاجرين کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے ليے دباؤ ہے۔ اسی سبب ہلسنکی حکومت پناہ گزينوں سے متعلق پاليسيوں ميں سختياں متعارف کر چکی ہے۔

يورپی ملک جرمنی کے شہر لائپزگ ميں بھی دائيں بازو سے تعلق رکھنے والے تقريباً دو سو افراد نے اسی ہفتے ريلی نکالی۔ سويڈن ميں گزشتہ برس اکتوبر ميں چہرے پر ماسک پہنے ايک شخص نے اس اسکول پر حملے ميں تارکين وطن پس منظر والے دو افراد کو قتل کر ديا تھا۔ فن لينڈ ميں تاحال تارکين وطن کے خلاف کوئی ناخشگوار واقعہ رپورٹ نہيں کيا گيا ہے تاہم حکام ’اوڈين کی فوج‘ نامی گروپ پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہيں۔