سعودی عرب کی ملاعمر کو سیاسی پناہ کی پیشکش
23 نومبر 2008جرمن ہفتہ وار میگزین Der Spiegelکے مطابق اس پیشکش کے پیچھے امریکی صدر بش اور افغان صدر حامد کرزئی کی کوششیں کار فرماں ہیں۔ میگزین نے اپنے انٹرنیٹ ایڈیشن میں کابل میں سرکاری ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اس پیشکش کا ذکر کیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال ستمبر میں کرزئی حکومت کے حامیوں اور سابق طالبان حکمرانوں کے مابین مذاکرات میں سعودی عرب ثالثی کا کردار ادا کر چکا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے کابل اور واشنگٹن کی طالبان پالیسی میں بھی واضح تبدیلی آئی ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی جو کبھی طالبان سے بات چیت کے حامی نہ تھے وہ بھی اب طالبان سے امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ملا عمر کو اپنا بھائی کہا اور اسے ہر طرح کی حفاظت مہیا کرنے کی پیشکش کی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر وہ طالبان سرکشی کو بند کر دے اور امن کے لیے تیار ہو لیکن طالبان نے ان کی پیشکش ٹھکرادی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ، ستمبر میں نیویارک منعقدہ اقوام متحدہ کی کانفرنس کے دوران صدر کرزئی، سعودی بادشاہ عبداللہ اور صدر زرداری نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جانے پر بات چیت کی تھی۔
پاکستان میں طالبان سے مذاکرات کا عمل ستمبر دو ہزار چھ ء میں اس وقت کے صدر ریٹائرڈ جنرل پرویر مشرف نے کیا تھا۔ لیکن ان مذاکرات کا کوئی حتمی فیصلہ نکل کر آج تک سامنے نہیں آیا۔ نئی جمہوری حکومت نے رواں سال اکتوبر میں ایک امن جرگے کا اہتمام کیا ۔ اس جرگے میں پاکستان اور افغانستان سے قبائلی عمائدین کو مدعو کیا گیا تھا۔ افعان وزیر خارجہ سپانتہ بھی اس جرگے میں شریک تھے۔