1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں بھی اومیکرون ویریئنٹ پہنچ گیا

1 دسمبر 2021

کورونا وائرس کی تبدیل شدہ شکل اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے دنیا بھر میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔ تیزی سے پھیلنے والے اس ویرینئٹ سے متاثرہ ایک مریض کی سعودی عرب میں بھی تشخیص ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/43h5f
تصویر: DADO RUVIC/REUTERS

سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے سعودی پریس ایجنسی کے مطابق بدھ یکم دسمبر کو ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ شخص میں نئے ویرینٹ کی شناخت ہوئی ہے۔ متاثرہ شخص ایک سعودی شہری ہے جو ایک شِمالی افریقی ملک سے سعودی عرب پہنچا تھا۔ مذکورہ شخص اور اس کے ساتھ سفر کرنے والوں کو قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔ خلیجی عرب ممالک میں اومکیرون ویرینئٹ کا یہ پہلا  معلوم کیس ہے۔ یاد رہے کہ سخت سفری پابندیوں کے بعد سعودی عرب نے حال ہی میں چھ مختلف ممالک سے مسافروں کے براہ راست سعودی عرب آنے پر لگی پابندی کا خاتمہ کیا تھا۔ پاکستان کے علاوہ ان میں بھارت، مصر، انڈونیشیا، برازیل اور ویتنام شامل ہیں۔ قبل ازیں ان ممالک سے آنے والے مسافروں کو سعودی عرب میں داخلے سے پہلے کسی تیسرے ملک میں 14 دن گزارنا لازمی تھے۔

Frankfurt am Main Fluggesellschaft Air Atlanta Icelandic
سعودی عرب نے اب کئی ممالک کی براہ راست پروازوں پر پابندی عائد کی ہے۔تصویر: Imago/Rüdiger Wölk

اومیکرون کے پھیلاؤ کے تناظر میں نئی سفری پابندیاں

کورونا وائرس کی تبدیل شدہ شکل اومیکرون کے پہلے کیس کی تشخیص کے بعد سعودی عرب نے اب کئی ممالک کی براہ راست پروازوں پر پابندی عائد کی ہے جن میں وہ تمام افریقی ممالک شامل ہیں جن میں اومیکرون ویریئنٹ کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس نئے وائرس کی شناخت اب تک بیس سے زائد ممالک میں ہوچکی ہے۔

سفری پابندیوں پر افریقی ممالک ناخوش

دو ہفتے قبل جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس کی ایک نئی تبدیل شدہ قسم اومیکرون کا پتہ چلایا گیا تھا۔ وائرس کی اس نئی قسم کی شناخت کے بعد دنیا کے زیادہ تر ممالک نے افریقہ کے ان ممالک سے آنے والے مسافروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان سفری پابندیوں کے جواب میں ان افریقی ممالک کا کہنا ہے کہ اس نئے وائرس کی تشخیص کے لیے انہیں سراہا جانا چاہیے نہ کہ سزا ملنی چاہیے۔ 

عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس کے حوالے سے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ انسان کے مدافعتی نظام کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ بہت تیزی سے اپنی شکل تبدیل کرتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس نئی قسم پر ویکسین بھی اثر انداز نہیں ہوتی۔ تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات دو سے چار ہفتوں میں متوقع ہیں کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں اس ویریئنٹ اور اس کے اثرات کے بارے میں اعداد وشمار جمع کیے جا رہے ہیں۔

ر ب/ا ب ا (اے ایف پی، اے پی)