1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں اولین مخلوط یونیورسٹی کا قیام

24 ستمبر 2009

سعودی عرب میں ملک کی اولین مخلوط یونیورسٹی کا افتتاح ہو گیا ہے، جہاں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کریں گے۔ اعلیٰ تعلیم کی اس جدید ترین درس گاہ کے قیام پر بھاری رقوم خرچ کی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/JnhT
تصویر: AP

اصلاح پسندوں کا کہنا ہے کہ اس یونیورسٹی کے قیام سے اس اسلامی ریاست میں تبدیلی آئے گی۔ مغربی سفارت کاروں نے امید ظاہر کی ہے کہ 'کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی' ملک میں تبدیلی کا محرک ثابت ہو گی۔ ماضی میں سعودی علماء کی مخالفت کے بعد بلدیاتی انتخابات اور متعدد ثقافتی تقریبات منسوخ کی جا چکی ہیں۔ ایسے اقدامات سے وہاں ریاستی اصلاحات کے لئے کی جانے والی کوششوں کو دھچکا لگا تھا۔

Deutschland Saudi Arabien König Abdullah trägt sich ins goldene Buch der Stadt Berlin
سعودی شاہ عبداللہتصویر: AP

شاہ عبداللہ نے 2005ء میں اقتدار سنبھالتے ہی اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کی۔ مغرب کی جانب سے تنقید اور تیل پر انحصار کم کرنے کے لئے شاہ عبداللہ سعودی عرب کو ایک جدید ریاست میں بدلنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کوششوں میں انہیں قدامت پسند علماء اور شہزادوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا بھی ہے۔ سعودی عرب کا شمار تیل برآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔

2003ء سے القاعدہ نے بھی اس عرب ریاست کے حکمرانوں کے خلاف اپنی مہم شروع کر رکھی ہے۔ القاعدہ کی طرف سے شاہی خاندان پر بدعنوانی کا الزام لگایا جاتا ہے اور امریکہ سے اتحاد کی بنیاد پر بھی اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ستمبر 2001ء میں امریکہ پر دہشت گردانہ حملوں میں ملوث بیشتر افراد کا تعلق بھی اسی عرب ملک سے تھا۔ شاہ عبداللہ کی حمایت کرنے والے ریاستی حکام کو خدشہ ہے کہ اصلاحات کے فقدان سے مستقبل میں نوجوان نسل شدت پسندی کی طرف مائل ہو گی۔

بدھ کو اس یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب میں شام کے صدر بشار الاسد، ان کے ترک ہم منصب عبداللہ گل اور متعدد نوبل انعام یافتہ شخصیات کے علاوہ بہت سے سفارت کاروں نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں شاہ عبداللہ نے کہا: 'بلاشبہ، ایسے سائنسی مراکز جہاں تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جائے، انتہا پسندی کے خلاف پہلا دفاع ہیں۔'

شاہ عبداللہ کے حامیوں نے ملک میں طلبہ و طالبات کی اس پہلی مخلوط یونیورسٹی کے قیام کو سعودی سربراہ مملکت کے منصوبوں کے لئے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ ایسے دیگر منصوبوں میں عدلیہ اور تعلیمی نظام میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ اقتصادی شہروں کا قیام بھی شامل ہے، جن کا مقصد سعودی نوجوانوں کے لئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا ہے۔

Türkei Abdullah Gül lehnt Anders Fogh Rasmussen als Nato Chef ab
ترک صدر عبداللہ گُل بھی افتتاحی تقریب کے مہمانوں میں شامل تھےتصویر: AP

اس یونیورسٹی کے قیام کا ایک مقصد سعودی عرب میں مقامی سائنسدانوں کی تیاری بھی ہے۔ تاہم ابتدائی طور یہاں 61 ممالک کے طلبہ و طالبات آئے ہیں جن میں مقامی طلبا کی تعداد محض 15 فیصد ہے۔

یہ یونیورسٹی جدہ کے شمال میں بحیرہ احمر کے ساحلی قصبے ثُوَل میں قائم کی گئی ہے۔ یہ 36 مربع میل کے رقبے پر پھیلی ہوئی انتہائی جدید درس گاہ ہے جس کے بارے میں سابق امریکی سفارت کار جان برگیس کہتے ہیں: 'دنیا میں کہیں بھی اس سے جدید یونیورسٹی کوئی نہیں۔ تاہم اس کے نتائج وقت کے ساتھ ساتھ ہی ظاہر ہوں گے۔'

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک اور مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ یہ یونیورسٹی انتہائی متاثر کن ہے، لیکن اصلاحات کا آغاز غلط مقام سے کیا گیا ہے۔ اس سفارت کار کا کہنا ہے کہ ایک یونیورسٹی پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے بجائے پرائمری تعلیم کی سطح پر تبدیلیاں لانے کی ضرورت تھی۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: مقبول ملک