سری لنکا میں عارضی فائر بندی
13 اپریل 2009سری لنکا کے وزير خارجہ نے بھی يہی کہا کہ وقفے کا مقصد شہريوں کو تامل ٹائيگرز کے قبضے سے فرار ہونے کا موقعہ فراہم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا کی حکومت اس اقدام کے ذريعہ عالمی برادری کے مطالبات بھی پورا کرنا چاہتی ہے۔
گذشتہ مہينوں کے دوران سری لنکا کی فوج نے تامل ٹائيگرز کو مسلسل شمال مشرق کی جانب پسپا ہونے پر مجبور کيا ہوا ہے۔ ليکن اس سکڑتے ہوئے ميدان جنگ ميں بے گناہ شہری بھی پھنسے ہوئے ہيں۔ ڈاکٹرز بغیر سرحد نامی تنظيم کی Annemarie Loof کہتی ہیں:’’يہ شہری پلاسٹک سے بنے ہوئے خيموں ميں رہ رہے ہيں۔ يہاں کھانے پينے کی چيزوں، پينے کے صاف پانی، ادويات اور نکاسیء آب کے نظام کی قلت ہے۔ برسات کا موسم بھی شروع ہوگيا ہے اور کئی جگہوں پر پانی جمع ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ارد گرد لڑائی بھی ہو رہی ہے۔‘‘
جنگ زدہ علاقے ميں کم از کم ايک لاکھ شہری، جن ميں تاملوں کی اکثريت ہے، پھنسے ہوئے ہيں۔ وہ اور تامل باغی اس وقت تقريبا پانچ مربع کلوميٹر کے علاقے ميں محصور ہيں۔
حقوق انسانی کی تنظيم ہيومن رائٹس واچ کے مطابق صرف جنوری سے اب تک تين ہزار شہری باغيوں اور سرکاری فوج کے درميان جنگ کی زد ميں آ کر ہلاک ہوچکے ہيں۔
تامل باغيوں کا کہنا ہے کہ شہری اپنی مرضی سے جنگ زدہ علاقے ميں رہ رہے ہيں ۔ ليکن تصاوير اور عينی شاہدين کے بيانات سے اس کی ترديد ہوتی ہے۔ سری لنکا کے انسانی حقوق کے کارکن پيريرا کہتے ہیں:’’جہاں تک ميری معلومات کا تعلق ہے تو تامل ٹائيگرز خود شہريوں کو اس علاقے سے نکلنے سے روک رہے ہيں۔ يہ بھی ممکن ہے کہ بہت سے اس لئے نہيں جارہے ہيں کيونکہ نہ تو فرار ہونے کا راستہ اور نہ ہی کيمپ بين ا لا قوامی نگرانی کے تحت ہيں۔‘‘
اقوام متحدہ اب تک اس کی بے سود کوشش کررہی ہے کہ جنگ زدہ علاقے سے فرار ہونے والے شہريوں کے کيمپوں کو فوج کے بجائے سول نگرانی کے تحت کرديا جائے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سری لنکا کی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے وقفے کو پہلا مفيد قدم قرار ديا ہے اور يہ اميد ظاہر کی ہے کہ يہ وقفہ لمبا ہوگا۔