سری لنکا: تامل باغیوں کا یک طرفہ اعلانِ جنگ بندی مسترد
27 اپریل 2009سری لنکا کے تامل علیحدگی پسند باغیوں نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ باغیوں کے ترجمان Seevaratnam Puleethevan کی جانب سے جاری ہونے والے اعلان میں بتایا گیا کہ جنگ بندی کا فیصلہ ناقابلِ بیان انسانی بحران کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
دوسری طرف سری لنکا کی وزارتِ دفاع کے سیکریٹری Gotabaya Rajapaksa نے تامل باغیوں کے یک طرفہ اعلان جنگ بندی کو ایک مزاق سمجھتے ہوئے کسی بھی معاہدے کو خارج از امکان قرار دیا۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ تامل باغیوں کو ہر صورت میں ہتھیار پھینک کر خود کو حکومت کے حوالے کرنا ہوگا۔ وزارت دفاع کے سیکریٹری کا مزید کہنا ہےکہ تامل اعلان کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ جنگ ہار رہے ہیں اور اُن کے علاقے پر حکومتی تصرف اب دنوں کی بات ہے ۔ انہوں نے ایک بار پھر تامل باغیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فوری طور ہتھیار پھینکتے ہوئے تمام عام سویلیئن کو رہائی دیں۔
ماہرین کے خیال میں یہ باغیوں کا اعلان اِس لئے بھی ہو سکتا ہے کہ باغیوں کی قوت کو حکومتی فوج نے منتشر کردیا ہے اور وہ مسلسل پسپائی اختیار کرتے ہوئے شمال مشرقی جنگلاتی علاقے میں گھیر لئے گئے ہیں۔ تامل باغی سرِ دست پانچ مربع میل یا آٹھ سے دس کلو میٹر کی پٹی کے اندر محدود کر دیئے گئے ہیں۔ وزارت دفاع کے مطابق سری لنکا کی فوج نے ایک اور اہم نوعیت کے گاؤں Valayanmadam پر قبضہ کرنے کے بعد تامل باغیوں کی قوت کو مزید کم کردیا ہے۔ اتوار کے صبح کو اِس گاؤں پر قبضے کے بعد تیئس مسلح باغیوں نے خود کو حکومت کے حوالے کردیا اور دو سو کے قریب عام شہریوں کو محفوظ مقام تک پہنچنے کا موقع ملا۔ اتوار کی صبح فوج کی پیش قدمی کے دوران بارہ باغیوں کو ہلاک اور تین تامل کشتیوں کو غرقِ آب کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔
تامل باغیوں کے تعاقب میں حکومتی فوج مسلسل ہے اور جنگ زدہ علاقے میں اقوام متحدہ کے مطابق پچاس ہزار عام انسان محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومتی فوج اِس تعداد کے ساتھ اتفاق نہیں کرتی اور اُس کے مطابق محصور افراد کی تعداد اب صرف پندرہ ہزار رہ گئی ہے۔
تامل باغیوں کا یک طرفہ اعلان جنگ بندی اُس وقت سامنے آ یا ہے جب اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے کے سربراہ John Holmes نے سری لنکا پہنچ کر انسانی حقوق کے وزیر Mahinda Samarasinghe سمیت دوسرے حکام کے ساتھ ملاقاتیں شروع کر رکھی ہیں۔ اُن کی ملاقاتوں کا اولین مقصد اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں کو جنگ زدہ علاقے کے محصورین کے علاوہ حکومتی کیمپوں میں رکھے گئے ہزارں افراد تک رسائی کی اجازت حاصل کرنا ہے۔
امدادی کارکنوں کو جنگی علاقے میں جانے کی اجازت نہیں اور باغیوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایسی پابندی عائد کر کے عام شہریوں تک خوراک کی فراہمی کو روک رکھا ہے۔ حکومت اِس الزام کی تردید کرتی ہے۔
جنگ بندی کے اعلان کے حوالے سے باغیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، بھارتی حکومت اور دوسرے ملکوں کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل میں ایسا کر رہے ہیں اور اِس پر فوری عمل درامد ہو گا۔ تامل باغیوں کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ باغی اِس اعلان پر اُسی صورت میبں عمل پیرا ہوں گے اگر حکومت کی جانب سے مناسب ردعمل سامنے آ یا۔ دوسری طرف حکومتی اہلکاروں کا خیال ہے کہ تامل اپنے اعلان سے عالمی ہمدردی حاصل کرنے میں ہیں اور اگر حکومت مثبت جواب دیتی ہے تو وہ کچھ وقت لے کر اپنی کھوئی ہوئی قوت کو دوبارہ اکھٹا کرنے میں مصروف ہو جائیں گے اور مناسب وقت پر ایک بار پھر حکومتی اختیار کو چیلنج کردیں گے۔
جنوری سن دو ہزار نو سے اب تک ساڑھے چھ ہزار سے زائد افراد کے ہلاک اور چودہ ہزار کے زخمی ہونے کا اقوام متحدہ کی جانب سے اعلان سامنے آ چکا ہے جب کہ سن اُنیس سو تراسی سے شروع ہونے والی تامل اقلیت کی علیحدگی کی مسلح تحریک میں ستر ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔