1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرحد کی صوبائی حکومت اور شریعت محمدی کے مذاکرات

فرید اللہ خان، پشاور10 اپریل 2009

سوات میں قیام امن کے حوالے سے مولانا صوفی محمد جہاں حکومتی سردمہری کا شکوہ کررہے ہیں وہیں پر خطے میں حصول امن میں اب تک کی ناکامی پر علاقے کے عوام میں مایوسی بھی بڑھتی جارہی ہے۔

https://p.dw.com/p/HUdB
تصویر: Faridullah Khan

صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے سوات میں نظام عدل ریگولیشن پر دستخط کرنے میں تاخیر اور امن کی غرض سے51 دن تک سوات میں مصروف تحریک نفاذ شریعت کے امیرمولانا صوفی محمد کی واپسی نے مالاکنڈ کےعوام کی مایوسی میں اضافہ کردیا ہے۔ مولانا صوفی محمد اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت مینگورہ شہر سے احتجاجا ًامن کیمپ ختم کرکے بٹ خیلہ کے علاقہ امان درہ پہنچ گئے ہیں جہاں وہ تین دن تک قیام اور شوریٰ کے اجلاس کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

سوات میں قیام امن کے حوالے سے مولانا صوفی محمد جہاں حکومتی سردمہری کا شکوہ کررہے ہیں۔ وہاں وہ طالبان کی بعض سرگرمیوں سے بھی خوش نہیں ہیں۔ مولانا صوفی محمد کے سوات سے نکلتے ہی مینگورہ میں مرکزی حکومت کے ریگولیشن پردستخط کرنے میں تاخیر کے خلاف سوات کے عوام سڑکوں پر نکل کراحتجاج کیا۔ مولانا صوفی محمد کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اورصدر آصف علی زرداری شریعت اور امن کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ شریعت کے بغیرمالاکنڈ ڈویژن میں قیام امن ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے احتجاجا 17 فروری سے قائم امن کیمپ ختم کرکے امن کے قیام کی زمہ داری آصف علی زرداری کے حوالے کرنے کا اعلان کیاہے۔ انکا کہنا ہے کہ امن معاہدہ صوبائی حکومت کے ساتھ ہے اور وفاقی حکومت سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔

تحریک نفاذ شریعت کے ترجمان امیرعزت خان کا کہنا ہے کہ ”سرحد حکومت کے ساتھ امن معاہدہ برقرار ہے۔ اب یہ صوبائی حکومت کا کام ہے کہ وہ کس طرح مرکز کے ساتھ یہ مسئلہ طے کرتی ہے۔ جہاں تک صدر آصف علی زرداری کا موقف ہے کہ وہ سوات میں قیام امن تک معاہدے پر دستخط نہیں کرینگے تو وہ یہاں آکر دیکھ لیں کہ پاکستان کے دیگرعلاقوں کے مقابلے میں مالاکنڈ ڈویژن زیادہ امن ہے۔

سرحد حکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین اوراے این پی کے صوبائی صدر افراسیاب خٹک کے مولانا صوفی محمد کے ساتھ اماندار میں امن مذاکرات ہوئے۔ بند کمرے میں ہونے والے ان طویل مذاکرات کے بعد سرحد حکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ ” ہم امن کے قیام کے لئے کوششوں کوآگے بڑھانے پرمتفق ہیں۔

تاہم مولاناصوفی محمد کا کہنا ہے کہ وہ مالاکنڈ ڈویژن ہی میں ہیں اورامن کے قیام کے عمل کو آگے بڑھانےکیلئے کام کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی بھی یہی کوشش ہے اوراب جبکہ یہاں ستر فیصد امن قائم ہو چکا ہے تو صدر آصف علی زرداری نظام عدل ریگولیشن پر دستخط کریں۔

میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ” ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں سترفیصد امن قائم ہے ہم نے جو کچھ کیا صدر آصف علی زرداری کو اعتماد میں لیکرکیا۔ ہم انہیں یہی کہیں گے کہ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ نظام عدل ریگولیشن پردستخط کرکے خطے میں امن کے قیام کو یقینی بنائیں۔“

سوات کے شہر مینگورہ میں مرکزی حکومت کے ریگولیشن پردستخط کرنے میں تاخیر کے خلاف سوات کے عوام بھی سڑکوں پر آچکے ہیں۔ مینگورہ شہرمیں متحدہ علماءکونسل کی کال پر احتجاجی جلسے میں سینکڑوں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی جنہوں نے صدر آصف علی زرداری سے مطالبہ کیا کہ سوات میں نظام عدل ریگولیشن پردستخط کرکے اس خطے کوپرامن بنائیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ نظام عدل ریگولیشن پردستخط نہ کرنے کی صورت میں سوات میں پرتشدد کاروائیوں کا پھر سے آغاز ہوسکتا ہے اس بات کا امکان اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ طالبان ابھی تک مسلح ہیں اوراسکا مظاہرہ انہوں نے گزشتہ روز سرحد کے ضلع بونیر پر لشکر کشی کرکے کیا ہے۔

بونیر میں تین روزہ کشیدگی کے دوران پانچ افراد ہلاک ہوئے تاہم بونیر قومی جرگہ اور تحریک طالبان سوات کے مابین مذاکرات کے بعد وہاں کے پہاڑوں پر قبضہ کرنیوالے طالبان نے واپسی شروع کردی ہے۔