سرب رہنما شیشل جنگی جرائم سے بری
31 مارچ 2016سابق یوگوسلاویہ کے لیے بنائے گئے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل (ICTY) کے جج ژاں کلود انٹونیٹی کا کہنا تھا، ’’چیمبر کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ استغاثہ کی جانب سے مناسب شواہد مہیا نہیں کیے گئے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ انہوں (شیشل) نے ان جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’فیصلے کے بعد ووژیسلاف شیشل ایک آزاد آدمی ہیں۔‘‘
61 سالہ شیشل پر ’عظیم تر سربیا‘ کے لیے ’سربیا کے تمام علاقوں کو‘ متحد کرنے کی ظالمانہ کوشش کے دوران جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے نو الزمات عائد کیے گئے تھے۔ استغاثہ کا الزام تھا کہ بہت سے کروشیائی افراد، مسلمانوں اور غیر سرب سویلین افراد کی ہلاکتوں کے پیچھے شیشل کا ہاتھ تھا۔ اس کے علاوہ ان پر بوسنیا ہیرسے گووینا، کروشیا اور سربیا سے ہزارہا افراد کو زبردستی بے دخل کرنے جیسے اقدامات میں کردار ادا کرنے کے بھی الزامات تھے۔
ججوں نے یہ تو تسلیم کیا کہ یہ جرائم ہوئے تھے تاہم ان کی پیراملٹری فورسز کے سربیا کی فوج کے ماتحت آنے کے بعد ان فورسز کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی ذمہ داری شیشل پر عائد نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ کا مقدمہ ’بوکھلاہٹ‘ اور ’ابہاموں‘ سے بھرا ہوا تھا اور وہ کروشیا اور بوسنیا میں پیش آنے والے واقعات کی وسیع تناظر میں وضاحت کرنے میں ناکام رہا ہے۔
استغاثہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ فیصلے کا محتاط جائزہ لے کر ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کے خلاف اپیل کے لیے ٹھوس بنیاد موجود ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہم پوری طرح یہ بات سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے سے بہت سے متاثرین اور برادریاں مایوس ہوئی ہوں گی۔‘‘
شیشل نے، جنہیں طبی وجوہات کے باعث فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں موجودگی سے استثنیٰ دیا گیا تھا، اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم کروشیا کے وزیر اعظم تیہومیر اوریشکووِچ نے ملزم کی بریت کے اس عدالتی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے: ’’یہ فیصلہ شرمناک ہے۔ یہ دی ہیگ کی عدالت اور استغاثہ کی شکست ہے۔‘‘
یہ فیصلہ سابق بوسنیائی سرب رہنما راڈووان کراڈچچ کو اقوام متحدہ کی جنگی جرائم سے متعلق عدالت کی طرف سے 40 سال سزائے قید سنائے جانے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔