زمبابوے حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات کا آغاز
22 جولائی 2008پیر کے روز جنوبی افریقہ کے صدر تھابو ایم بیکی کی مصالحت کاری کے نتیجے میں ایک غیر معمولی منظر دیکھنے میں آیا۔ ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کی قسم کھانے والے زمباوے کے صدر رابرٹ مگابے اور تحریک برائے جمہوری تبدیلی کے سربراہ مارگن چوانگرائی دس سال کے عرصے میں ایک دوسرے سے پہلی ملاقات کرہے تھے۔ اس ملاقات کا مقصد زمبابوے کے سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے اصول طے کرنا اور اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کرنا تھا۔
مگابے حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات کا مقصد قومی حکومت کا قیام اور اس سے قبل فریقین کی جانب سے زمبابوے میں پر تشدّد کارروائیوں کی روک تھام کرنا ہے۔ باوجود اس کے، دونوں جماعتیں تا حال اس بات پر متفّق دکھائی نہیں دیتیں کہ قومی حکومت میں مرکزی کردار کون سی جماعت ادا کرے گی۔ معاہدے کے مطابق مزاکرات کے زریعے بحران کا حل دو ہفتوں کے اندر نکال لیا جائے گا۔ بہت سے حلقے دو ہفتوں میں زمبابوے کے دیرینہ تنازعے کا حل نکالے جانے کو خوش فہمی قرار دے رہے ہیں۔
دوسری جانب کینیا کے وزیرِ اعظم رآیلا اوڈنگا نے ایک مرتبہ پھر رابرٹ مگابے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔ امریکی حکومت کے مطابق وہ صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور زمبابوے پر سے فی الوقت پابندیاں اٹھانے کا اس کا ارادہ نہیں ہے۔ کچھ یہی حال یورپی یونین کا ہے۔ نہ صرف یہ کہ جینیوا منعقدہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں زمبابوے پر پرانی پابندیاں برقرار رکھی گئی ہیں بلکہ یورپی یونین نے ان پابندیوں میں اضافہ کرنے اور ان کا دائرہ کار زمبابوے کے کاروباری اور تجارتی حلقوں تک پھیلانے کا اعلان کردیا ہے۔