روس ميں پوليس کے کردار پر سواليہ نشان
26 مارچ 2012جب دارالحکومت ماسکو سے تفتیش کاروں کی ايک ٹيم باون سالہ روسی باشندے Sergei Nazarov کے ساتھ پولیس کی حراست میں جنسی تشدد اور موت کی رپورٹوں پر تفتيش کے ليے کزان پہنچی، تو وہاں مزيد چاليس افراد پوليس کی حراست کے دوران جنسی تشدد کی رپورٹيں دائر کرانے کے ليے موجود تھے۔ اس واقعے کے بعد تفتیش کاروں کی ٹيم نے ڈيلنی پوليس اسٹيشن کے سات متعلقہ اہلکاروں کو حراست ميں لے ليا ہے اور ٹيم تين مزيد واقعات کی تفتيش کر رہی ہے۔
وسطی روس کے شہر کزان ميں واقع ڈيلنی پوليس اسٹيشن ميں مبينہ طور پر تشدد کا شکار بننے والے بائيس سالہ Oskar Krylov يہ الزام عائد کرتے ہيں کہ گزشتہ سال اکتوبر ميں پوليس نے انہيں مشتبہ طور پر چوری کے الزام ميں گرفتار کرنے کے بعد جنسی تشدد کا شکار بنايا۔ اے ايف پی سے بات کرتے ہوئے Krylov نے کہا، ’Sergei Nazarov کا انجام ديکھتے ہوئے ميں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کيونکہ ميں زندہ ہوں اور ميری صحت ٹھيک ہے‘۔
اگرچہ مقامی ميڈيا کی متعدد رپوٹيں ڈيلنی پوليس اسٹيشن ميں پوليس کے مبينہ تشدد کی نشاندہی کرتی آئی ہيں، کزان کے پوليس اہلکار ان الزامات کی ترديد کرتے ہيں۔ خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کزان کے پوليس چيف Rustem Kadyrov کا کہنا تھا کہ لوگوں کو پوليس پر بھروسہ کرنا چاہيے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’ايک شرمناک واقعے کی بناء پر پورے ادارے کو الزام دينا درست نہيں ہے‘۔
دوسری جانب ملک ميں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظيميں کزان کے پوليس چيف کے بيان سے اتفاق نہيں کرتیں۔ کزان رائٹس سينٹر کے ڈائريکٹر Igor Sholokhov کا کہنا ہے کہ انہوں نے رواں ہفتے پوليس تشدد سے متعلق سترہ فائلز استغاثہ کو جمع کروائی ہيں۔ ان کے مطابق پانچ کيسز ميں ملزمان کی موت بھی واقع ہو چکی ہيں۔ البتہ Sholokhov کا دعوٰی ہے کہ يہ صورتحال محض Tatarstan تک محدود نہيں بلکہ ملک کے ديگر حصوں ميں بھی جيلوں ميں مختلف مظالم جاری ہيں۔
اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے روسی صدر Dmitry Medvedev نے ملکی پوليس کے نظام کو بہتر بنانے کو کافی ترجيح دی تھی ليکن پچھتر فيصد روسی عوام کا ماننا ہے کہ نظام ميں کوئی تبديلی نہيں آئی ہے۔
رپورٹ: عاصم سليم
ادارت: کشور مصطفی