روبرو بھی بات ہوئی لیکن رینجرز کا معاملہ جُوں کا تُوں
30 دسمبر 2015بظاہر اختلافات ختم کرنے کی ’یقین دہانیوں‘ کے ساتھ اختتام پذیر ہنے والی ملاقات بھی اس حقیقت پر پردہ نہیں ڈال پائی کہ اس معاملے پر اختلافات کا سلسلہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ اس ملاقات میں وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار اور وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ سندھ کے وزیرِ داخلہ سہیل انور سیال اور صوبائی کابینہ کے رکن مراد علی شاہ بھی شریک ہوئے۔
ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائم علی شاہ نے کہا کہ رینجرز سمیت کسی بھی ادارے کو مشروط یا غیر مشروط طور پر بلانا صوبائی حکومت کا اختیار ہے اور اس اختیار کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی صوبائی حکومت کا یہ موقف آئینی ہے اور اس آئینی موقف کا احترام کیا جائے۔
دونوں حکومتوں کے درمیان موجودہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب سندھ حکومت نےگزشتہ ہفتے وفاقی حکومت کو رینجرز کے سندھ میں قیام میں دو ماہ کی توسیع کی درخواست کی تھی اور ساتھ ہی ایک سمری بھی بھجوائی تھی، جس میں رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دیے گئے اختیارات میں کمی کی سفارش کی تھی۔ تاہم وفاقی وزیر داخلہ کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں سندھ حکومت کی سمری کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
اس پر سندھ حکومت کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا اور صوبائی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے بھیجی گئی سمری مسترد کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کا موقف تھا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ وفاق کا بنایا ہوا قانون ہے اور کسی بھی صوبائی حکومت کو اس قانون میں تبدیلی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
خیال رہے کہ دونوں حکومتوں کے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے بعد سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹائیں گے۔
بدھ کو وزیر اعظم نواز شریف اور سندھ کے وزیر اعلی قائم علی شاہ کے درمیان ہونے والی ملاقات کو اس تناظر میں اہم سمھجا جا رہا تھا کہ شاید اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کر لیا جائےگا۔
اس ملاقات کے بعد سرکاری طور پر تو کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے انہیں کراچی آپریشن میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا ہے کہ وہی اس آپریشن کے کپتان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو ایک ہفتے میں کراچی کا دورہ کر کے معاملات پر تبادلہٴ خیال کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ قائم علی شاہ کا کہنا تھا:’’ہم (اس ملاقات سے)کسی حد تک مطمئن ہیں، جب تک یہ مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوتا، تب تک تو ان کے سامنے ہماری یہ بات تو ہے۔ چودھری صاحب آئیں گے، بات کریں گے کیونکہ 60 دن کے بعد پھر بات اٹھے گی۔‘‘
سینیئر صحافی اور ڈان نیوز کے پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ کے ایک میزبان مبشر زیدی کے مطابق قائم علی شاہ کی گفتگو کا لب لباب یہی تھا کہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’اصل مسئلہ پیپلزپارٹی کے صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد شروع ہوا تھا اور پھر یہ معاملہ شدت اختیار کرتا گیا۔ اب یہ مسئلہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ یہاں وفاقی حکومت بھی کسی حد تک بے بس ہے کیونکہ اسے یا تو پھر رینجرز کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، جو کراچی کا امن بہتر کرنے کی دعویدار ہے یا پھر اسے پیپلز پارٹی کی بات ماننی پڑےگی تو میرے خیال میں حکومت نے پہلے والا آپشن اختیار کیا ہے۔‘‘ مبشر زیدی کے مطابق مسئلہ تب تک حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا جب تک کہ وفاقی حکومت رینجرز سے بدعنوان عناصر کےخلاف کارروائی کرنے کا اختیار واپس نہیں لیتی۔
اس سے قبل قائم علی شاہ کا بھی کہنا تھا کہ رینجرز کو انسداد دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے خلاف کارروائیاں کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ تاہم ان کے بقول رینجرز اپنے دائرہ اختیار سے ہٹ رہی ہے کیونکہ بدعنوانی کے خلاف کارروائی رینجرز کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ ’کرپشن صوبائی معاملہ ہے۔ ہمارے پاس انسداد بدعنوانی کا ادارہ ہے، وہ خوش اسلوبی سے کام کر رہا ہے‘۔
رینجرز کے اختیارات محدود کرنے کے حوالے سے پی پی پی کو اس وقت صوبے میں قابل ذکر سیاسی حمایت اس لیے نہیں مل پا رہی کہ سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم اس مسئلے پر صوبائی حکومت کےساتھ نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ جب رینجرز اہلکار اس کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے، تب پیپلز پارٹی رینجرز کی حمایت کر رہی تھی۔