راکٹ تجربے کی مذمت پر شمالی کوریا کا جواب
14 اپریل 2009اس لئے کہ پیانگ یانگ نے اپنے جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی برادری کے ساتھ مذاکرات میں حصہ نہ لینے کے علاوہ اپنی ایٹمی تنصیبات میں پلوٹونیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر دینے کا اعلان کردیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک شمالی کوریا کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ملکوں اور جرمنی پر مشتمل چھ کے گروپ کے ساتھ بات چیت کا محور یہ تھا کہ پیانگ یانگ کی ایٹمی تنصیبات کو بند کرنے کے بعد انہیں بتدریج ختم کیسے کیا جائے گا۔ پھر اس معاملے میں کمیونسٹ کوریا اور چھ ملکی گروپ کے مابین نہ صرف اختلافات پیدا ہوئے بلکہ وہ اتنے شدید بھی ہو گئے کہ پیانگ یانگ جنوبی کوریا، جاپان، امریکہ اور کئی دوسرے ملکوں کی مسلسل تنبیہات کے باوجود اپنے اس حالیہ متنازعہ راکٹ تجربے سے بھی باز نہ آیا جسے وہ کامیاب قرار دیتا ہے۔
پھر جاپان کی درخواست پر سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا اور پہلی مرتبہ کوئی نتیجہ نہ نکلنے کے بعد دوسری نشست میں اس تجربے کی مذمت کی گئی تو شمالی کوریا کی کمیونسٹ قیادت کا لہجہ اور بھی سخت ہو گیا۔ پیانگ یانگ حکومت نے منگل کے روز یہ اعلان کردیا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام سے متعلق چھ ملکی مذاکرات میں بھی شامل نہیں ہو گی اور عنقریب ہی اپنا وہ ایٹمی ری ایکٹر بھی دوبارہ چلانا شروع کردے گی جس میں مبینہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہوسکنے والا پلوٹونیم تیار کیا جاسکے گا۔
خود شمالی کوریا اگرچہ یہ اعتراف نہیں کرتا کہ اس کی ایٹمی تنصیبات میں تیار ہوسکنے والا پلوٹونیم جوہری ہتھیاروں میں استعمال ہو سکنے کے قابل ہوگا تاہم مغربی دنیا کا پیانگ یانگ پر الزام یہی ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی اپنی کوششوں کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
شمالی کوریا کے خلاف اضافی پابندیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوزن رائس کہتی ہیں:" ہم نے اس بارے میں ایک امریکی فہرست تو تیار کرلی ہے لیکن اس فہرست میں ترمیم اور اضافے کے لئے امریکہ دوسرے ملکوں کی تجاویز کا بھی خیرمقدم کرے گا۔"
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پیانگ یانگ نے اپنے جس تازہ ترین لیکن شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اس کے اسباب کیا ہیں؟ جرمن فاؤنڈیشن برائے سائنس اور سیاست کے شمالی کوریا سے متعلقہ امور کے ماہر ڈاکٹر مارکوس ٹیٹن کہتے ہیں: "شمالی کوریا نے اپنے رد عمل میں اتنی جلد بازی اس لئے کی کہ اس نے شروع سے ہی واضح کردیا تھا کہ اگر اس کے راکٹ تجربے کا معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھایا گیا تو وہ اسے اپنے خلاف اعلان جنگ سمجھے گا اور فوری رد عمل کا مظاہرہ کرے گا۔"
ان حالات میں شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق تنازعے کا ممکنہ حل اب اور بھی دور ہو گیا ہے۔