1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ دہشت گرد ہیں‘‘

افسر اعوان5 جنوری 2016

پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے سے ایک روز قبل بھارتی پولیس کے ایک ایس پی کو یرغمال بنا لیا گیا تھا تاہم ان کی گاڑی چھین کر انہیں چھوڑ دیا گیا۔ اس پولیس افسر کے مطابق بھاری ہتھیاروں سے لیس یہ افراد اردو بول رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/1HY4G
تصویر: Reuters/M. Gupta

پولیس سپرنٹنڈنٹ سِلوندر سنگھ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے جیسے ہی انہیں دیکھا، میں سمجھ گیا کہ یہ دہشت گرد ہیں۔‘‘ سنگھ کا مزید کہنا تھا، ’’ان میں سے ایک مسلح شخص نے میرا فون چھینا اور پاکستان میں کالز کیں۔‘‘

مسلح افراد نے سلوندر سنگھ کو چھوڑ دیا تاہم ان کی گاڑی ساتھ لے گئے۔ اس واقعے کے بعد جب سنگھ نے پولیس کو بُلایا تو انہوں نے اسے ایک مسلح ڈاکے کی واردات سمجھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ کوتاہی پٹھان کوٹ ایئربیس پر دو جنوری کو کیے جانے والے حملے کے تناظر میں بھارت کی طرف سے سکیورٹی میں کوتاہیوں کے سلسلے کی ہی ایک کڑی تھی۔

بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق موبائل فون ٹاور سے حاصل شدہ ریکارڈ کے مطابق حملہ آوروں نے ایئربیس کے اندر سے یکم جنوری کی دوپہر سے ہی سلوندر سنگھ سے چھینے گئے موبائل سے کالز کیں۔ یعنی یہ اس سے قریب 12 گھنٹے قبل کا وقت بنتا ہے جب بھارتی حکومت کے مطابق حملہ آوروں کا فضائی نگرانی کے ذریعے کھوج لگایا گیا۔

حملے کے چوتھے روز بھی آپریشن جاری

پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کے چوتھے روز آج منگل کو بالآخر فائرنگ کی آوازیں بند ہو گئی ہیں۔ بھارتی حکام کے مطابق تاہم اس وقت ایئربیس پر ممکنہ طور پر موجود چھٹے حملہ آور کی تلاش کا کام جاری ہے۔ روئٹرز کے مطابق سینکڑوں پولیس اہلکار ایئربیس کے ارد گرد جنگلاتی علاقے میں حملہ آوروں کے ممکنہ ساتھیوں کی تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ہفتہ دو جنوری کو علی الصبح کیے جانے والے اس حملے میں سات بھارتی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بھارتی سکیورٹی فورسز اب تک پانچ حملہ آوروں کو ہلاک کر چکی ہیں۔ روئٹرز کے مطابق سکیورٹی فورسز نے پانچویں حملہ آور کو پیر کے روز ہلاک کیا تھا۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کوئی اور حملہ آور بھی ایئربیس پر موجود ہے یا نہیں۔

سینکڑوں پولیس اہلکار ایئربیس کے ارد گرد جنگلاتی علاقے میں حملہ آوروں کے ممکنہ ساتھیوں کی تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں
سینکڑوں پولیس اہلکار ایئربیس کے ارد گرد جنگلاتی علاقے میں حملہ آوروں کے ممکنہ ساتھیوں کی تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/N. Nanu

بھارتی فوج کے ایک ترجمان منیش مہتا نے روئٹرز کو بتایا، ’’ہم یہ بات نہیں بتا سکتے کہ مزید عسکریت پسند موجود ہیں یا نہیں۔‘‘

روئٹرز کے مطابق بظاہر بہت منصوبہ بندی کے ساتھ فوجی حوالے سے ایک انتہائی اہم تنصیب پر کیے جانے والے اس حملے نے دو روایتی حریفوں اور ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان 15 جنوری کو طے شدہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ایک حکومتی اہلکار کی طرف سے پیر چار دسمبر کو کہا گیا تھا کہ مذاکرات کے انعقاد کا فیصلہ پٹھان کوٹ ایئربیس پر جاری آپریشن مکمل ہونے کے بعد کیا جائے گا۔

ذمہ داری یونائیٹڈ جہاد کونسل نے قبول کر لی

پیر کے روز پٹھان کوٹ ایئربیس پر کیے جانے والے اس حملے کی ذمہ داری یونائیٹڈ جہاد کونسل نے قبول کر لی۔ روئٹرز کے مطابق پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں جڑیں رکھنے والے اس گروپ نے ایک بیان میں ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی کوئی بھی حساس تنصیب ان کی پہنچ سے دور نہیں ہے۔

پاکستان کی طرف سے اس حملے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق بھارت نے پاکستان کے ساتھ اس حملے کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان بات چیت کے ایک مسلسل عمل پر یقین رکھتا ہے۔

یہ بات ابھی تک غیر واضح ہے کہ حملہ آور ایئربیس کے اندر داخل ہونے میں کامیاب کس طرح ہوئے کیونکہ بیس کے ارد گرد 24 کلومیٹر طویل اور تین میٹر بلند کنکریٹ سے بنی چاردیواری ہے، جس پر خار دار تاریں لگی ہیں۔