1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دھماکہ خیز مواد: کیمیائی مادے بآسانی دستیاب

17 مئی 2010

پاکستانی صوبہ خیبرپختونخوا اورملحقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گرد تباہی مچانے کے لئے دیسی ساختہ بم استعمال کرتے ہیں۔ سکول، مساجد، مدارس اور یہاں تک کہ خودکش حملوں میں بھی دیسی ساخت کے تیارکردہ بارود استعمال کیاجاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/NQKC
تصویر: AP

دیسی ساخت بموں کی تیاری کے لئے تمام تر مواد مقامی مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہیں۔ روزمرہ استعمال کے ان اشیاء میں زراعت کے لئے استعمال ہونے والی ادویات اورکمیائی کھاد سرفہرست ہیں، جس میں امونیم نائیٹریٹ، ایمونیم سلفیٹ، فاسفیٹ اوردیگر کیمیائی مادے شامل ہیں۔ اسی طرح ماچس اوردیگر مقاصد کے لئے استعمال ہونے والا سلفر بھی بازار میں بآسانی دستیاب ہے، جو بارود کا اہم جزو ہوتا ہے۔ پوٹاشیم، فاسفورس اوردیگر کئی کیمکلز سمیت ہرقسم کاتیزاب مارکیٹ میں بآسانی دستیاب ہے۔

Mindestens 50 Tote bei Anschlag in Peshawar
ان بموں میں استعمال ہونے والا کیمائی مواد پاکستان میں بآسانی دستیاب ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ادویات، تعمیراتی مواد، پینٹ اورکان کنی کے لئے استعمال ہونے والی اشیاء سمیت مائنز اینڈ منرلز میں کئی ایسے کیمکلز استعمال کئے جاتے ہیں، جنہیں حاصل کرکے عسکریت پسند اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان اشیاءسے بم بنانے کے بارے میں بم ڈسپوزل سکواڈ کے سربراہ شفقت ملک کہتے ہیں : ”اب جبکہ دہشت گرد بکھر چکے ہیں، یہ اپنی واردات کے لئے روزمرہ استعمال کی چیزوں کو استعمال میں لاتے ہوئے دھماکہ خیز مواد تیار کرتے ہیں۔ ان اشیاءمیں کیمیائی کھاد جو کاشتکار استعمال کرتے ہیں، سرفہرست ہے۔ جبکہ تیزاب، نوکدار کیل، چرے اور دیگر کیمکلز بھی بازاروں میں دستیاب ہیں۔ حکومت کواس بارے میں تحریری طورپر مطلع کیاگیا ہے کہ ان اشیاءکے کاروبار کو ریگولیٹ کیاجائے اوراس کی نقل وحمل پر بھی نظر رکھی جائے۔ اسی طرح مائنز اینڈ منرلز کے لئے استعمال ہونے والا بارود بھی مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہے۔ دہشت گرد اسے آسانی سے حاصل کرکے اپنے مزموم عزائم کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ "

Elf Tote bei Anschlag auf Luxushotel in Pakistan
پاکستان میں دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات میں دیسی ساختہ بم استعمال ہوتے دیکھے گئے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

ان اشیاءکی نقل وحمل کے بارے میں قوانین موجود ہیں لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد بآسانی ان اشیاء تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل شفقت ملک کاکہنا ہے کہ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ ان اشیاءکی نقل وحمل پرنظر رکھی جائے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ دیگر حکومتی اداروں اور عوام الناس کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اشیاءکی نقل وحمل پر نظر رکھیں اور کسی قسم کے ایسی سرگرمی سے متعلقہ اداروں کو مطلع کریں۔

صوبہ خیبر پختونخوا اورملحقہ قبائلی علاقوں میں جاری دہشت گردی کی روک تھام کے لئے صرف سیکیورٹی فورسز کو ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے نہ تھمنے والے سلسلے میں دیگر اداروں کاعدم تعاون اس عمل کوبڑھاوا دے رہا ہے زیادہ تر ادارے ان غیرمعمولی حالات میں موثر اقدامات اٹھاتے نظر نہیں آتے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن سمیت صوبہ خیبرپختونخوا اورقبائلی علاقوں میں سرکاری املاک باالخصوص سکولوں، ہسپتالوں اور رابطہ پلوں کواڑانے کے لئے مقامی طورپر تیار کئے جانے والے بم استعمال کئے جاتے ہیں۔ جبکہ بعض علاقوں میں خودکش حملوں اورکار بم دھماکے بھی مقامی طورپر تیار کئے گئے بارودی مواد سے کرائے جاتے ہیں۔

رپورٹ : فرید اللہ خان، پشاور

ادارت : عاطف توقیر